کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 144
اصحابِ حیثیت لوگ ہیں جو اپنی ضروریات پوری کرنے میں کسی کے محتاج نہ ہوں ۔ تاہم وہ اغنیاء مستثنیٰ ہیں جن کے لیے زکاۃ جائز قرار دے دی گئی ہے۔ جیسے عاملین، غازی (فی سبیل اللہ) ابن السبیل (مسافر)، مؤلفۃ القلوب اور وہ لوگ جو باہمی تنازعات کے خاتمے اور مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے کسی کے قرض کی ادائیگی کی ذمے داری اٹھالیں ، ان کے لیے قرآن میں غارمین کا لفظ ستعمال کیا گیا ہے۔ یہ پانچ قسم کے لوگ ہیں جو فقیرہوں یا غنی، حسب ضرورت ان پر زکاۃ کا مال خرچ کرنا جائز ہے۔ بعض علماء نے ان مذکورہ قسموں پر غور کرکے ان کو دو قسموں پر تقسیم کیا ہے اور اس سے یہ بات اخذ کی ہے کہ جو مسلمان حاجت مند ہوں ، وہ بھی مستحق زکاۃ ہیں اور جن لوگوں کے، مسلمان حاجت مند ہوں ، (یعنی جن کی خدمات اور کردار سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچے) ان پر بھی زکاۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے۔ پہلی قسم: جو مسلمان حاجت مند ہوں ، جیسے فقراء و مساکین، آزاد کرنے کے قابل غلام، مقروض اور مسافر ہیں ۔ دوسری قسم: جن کی مسلمانوں کو حاجت ہو۔ جیسے عاملین، مؤلفۃ القلوب، غار مین (صلح کی خاطر دوسروں کا مالی بوجھ اٹھانے والے) اور فی سبیل اللہ (اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے) ہیں اور اسی میں بعض علماء نے علوم دین حاصل کرنے یا پھیلانے کے لیے اپنے آپ کو وقف کردینے والے طلباء اور علماء کو بھی شامل کیاہے، کیونکہ ان کا مقصد بھی جہاد کی طرح اعلائے کلمۃ اللہ ہی ہے جس سے اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے: