کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 141
مسلمانوں کی امداد کی ضرورت پیش آئے اور مسلمانوں کے تعاون کے بغیر ان کے لیے اپنے جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنا اوراپنے گھر واپس پہنچنا مشکل ہو جائے۔ توایسے مسافروں پرزکاۃ کی رقم خرچ کرنا جائزہے اور جو شخص دونوں جگہ ہی محتاج ہو، وہ مسافر تو بطریق اولیٰ زکاۃ کا مستحق ہے۔ زکاۃ کی تقسیم حالات و ضروریات کے مطابق ہونی چاہیے: بعض ائمہ کی رائے ہے کہ جن آٹھ مصارفِ زکاۃ کا ذکرقرآن مجید میں ہے، اگر مالک یا اس کا وکیل خود زکاۃ تقسیم کرے (سرکاری اہل کار۔ عامل۔ اس سے وصول کرکے بیت المال میں جمع نہ کرے) تو وہ زکاۃ کو سات حصوں میں تقسیم کرکے ساتوں مصارف پر تھوڑی تھوڑی خرچ کرے اور اگر خلیفۂ وقت کی طرف سے زکاۃ کے جمع کرنے اور تقسیم کرنے کا نظام قائم ہو تو وہ آٹھوں مصارف پر تقسیم کرے۔ لیکن یہ رائے جمہور کی رائے کے خلاف ہے۔ جمہور علماء یہی کہتے ہیں کہ آٹھ مصارف بیان کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر شخص اپنی زکاۃ آٹھوں یا ساتوں حصوں پر تقسیم کرے، بلکہ ان مصارفِ ثمانیہ کے ذکر سے اس امر کی وضاحت مقصود ہے کہ یہ یہ افراد اور یہ یہ جگہیں ہیں جہاں زکاۃ کی رقم خرچ کرنی جائز ہے۔ اب یہ حالات پر منحصر ہے، چاہے زکاۃ انفرادی طور پر ادا کی جائے یا اجتماعی طور پر۔ کہ کون یا کون کون اس وقت زیادہ مستحق ہے؟ اس حساب سے زکاۃ کی تقسیم عمل میں لائی جائے گی۔ اگر ملک میں غربت و ناداری زیادہ ہے، جبکہ جہاد کا مرحلہ بھی سامنے نہیں ہے، اسی طرح اور بھی بعض مصارف زیادہ اہمیت کے حامل نہیں ہیں ، تو ساری زکاۃ فقراء و مساکین پر تقسیم کردینا بھی جائز بلکہ انسب ہے۔ اسی طرح اگر جہاد کا مرحلہ سامنے ہے تو ساری