کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 139
پر جہاد فی سبیل اللہ صادق آتا ہے کیونکہ ان کا مقصد بھی جہاد کی طرح اعلائے کلمۃ اللہ (دین کا غلبہ اور اس کی سربلندی) ہے۔ ان میں ہر پڑھنے والا بھی مجاہد ہے چاہے وہ غریب ہو یا صاحبِ حیثیت، اس لیے بلا تفریق سب پر زکاۃ کی رقم خرچ ہوسکتی ہے۔ بلکہ مدارس دینیہ میں زیر تعلیم طلباء کا استحقاق دوگنا ہے۔ ایک اس وجہ سے کہ ان کی اکثریت فقراء و مساکین کے ذیل میں آتی ہے اور دوسری اس وجہ سے کہ ان کی زندگی اور تعلیم کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔
مدرسے کی تعمیر اور تنخواہوں پر زکاۃ؟
مدارسِ دینیہ کے سلسلے میں ایک سوال یہ بھی سامنے آتا ہے کہ ان کی تعمیر اور دیگر ضروریات پر، اسی طرح ان میں پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہوں پر بھی زکاۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ راقم کے خیال میں آج کل دین کی حفاظت اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے مدارس دینیہ ہی سب سے بڑا ذریعہ ہیں ، گویا جہاد کا جو مقصد ہے وہی مقصد دینی مدارس و مراکز کا ہے، اس اتحادِ علت کی وجہ سے مدارس کی تعمیر پر (بشرطیکہ عمارت کو پر شکوہ بنانے کے لیے اسراف سے کام نہ لیا جائے) اور اساتذہ و دیگر ملازمین کی تنخواہوں پر بھی زکاۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہو گا، کیونکہ ان کے بغیر دینی مدارس نہ قائم ہو سکتے ہیں اور نہ وہ اپنا کام ہی کر سکتے ہیں ۔
ہسپتالوں اور ان کی مشینریوں پر زکاۃ لگ سکتی ہے؟
آج کل ایک اور سلسلہ عام ہو گیا ہے کہ ہسپتالوں کے قیام اور ان میں علاج معالجہ کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے نہایت گراں قیمت مشینوں اور آلات کے لیے زکاۃ