کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 138
سے ہونا صحیح ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی اس کی بابت ایک اثر منقول ہے۔ملاحظہ ہو۔ (ارواء الغلیل: 869/3) صحیح بخاری میں معلقاً حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی رائے بھی یہی نقل کی گئی ہے کہ زکاۃ کی رقم حج کے لیے دی جاسکتی ہے اور حضرت ابولاس رضی اللہ عنہ سے معلقاً منقول ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر حج کے لیے زکاۃ کے اونٹ عطا فرمائے۔[1] امام شوکانی رحمہ اللہ اس طرح کی احادیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ’’یہ احادیث اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ فی سبیل اللہ کی مد سے حج اور عمرہ کے لیے جانے والوں کی امداد کی جاسکتی ہے اور ان کے سفر کا سامان وغیرہ تیار کرنا جائز ہے۔ اگر کوئی جانور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف ہے تو اس پر حاجی اور معتمر سفر کرسکتا ہے۔‘‘[2] امام شوکانی رحمہ اللہ کی اس عبارت کی بنیاد بھی اس حدیث پر ہے جس میں حج اور عمرہ دونوں کو فی سبیل اللہ میں سے بتلایا گیا ہے،لیکن جیسا کہ پہلے گزرا کہ عمرے کا ذکر شاذ ہے، اس لیے صرف حج کا فی سبیل اللہ میں سے ہونا صحیح ہے۔ تبلیغ و دعوت کے کام بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہیں اسی طرح مدارس دینیہ پر جہاں فقیر، مسکین اور غریب طلباء تعلیم پاتے ہوں ، یا کسی بھی تبلیغی تحریری یا تقریری مد میں زکاۃ کا مال صرف کرنا جائز ہے، کیونکہ تبلیغی جدوجہد
[1] صحیح البخاري، کتاب الزکاۃ، باب: 49۔ [2] نیل الأوطار: 193/4، باب الصرف في سبیل اللّٰہ وابن السبیل ۔