کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 136
کے باوجود اس کا قرض تم ادا کرو، اس لیے کہ وہ غارم (مقروض) ہے۔‘‘[1] اسی قسم کی رائے کااظہار حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے۔ 7. فی سبیل اللہ یعنی ’’اللہ کی راہ میں ‘‘ یہ لفظ عام ہے۔ تمام وہ نیکی کے کام جن میں اللہ کی رضا ہو، اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں ۔ لیکن جمہور علماء اس کے قائل ہیں کہ یہاں فی سبیل اللہ ’’اللہ کی راہ میں ‘‘ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے، اس لیے اس سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو محاذِ جنگ پر دشمنانِ اسلام سے نبرد آزما ہوں ، یہ لوگ غنی ہوں تب بھی ان پر مالِ زکاۃ صرف کرنا جائز ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: ’’مالِ زکاۃ صرف اس غازی پر خرچ کیا جاسکتا ہے جو غریب ہو‘‘ لیکن قرآن مجید کے اطلاق سے یہ تخصیص درست نہیں رہتی۔ قرآن میں عموم ہے جو ہر غازی کو شامل ہے، چاہے غریب ہو یا غنی۔ اس کے علاوہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح الفاظ میں مال دار غازی کو بھی زکاۃ کا مستحق قرار دیا ہے: ((لَا تَحِلُّ الصَّدَقَۃُ لَغَنِيٍّ إِلَّا لِخَمْسَۃٍ: لِغَازٍ فِي سَبِیْلِ اللّٰہِ)) ’’پانچ قسم کے اغنیاء کے علاوہ کسی کے لیے مالِ زکاۃ جائز نہیں ۔ ان میں سے ایک غنی ’’غازی فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔‘‘[2] اسی طرح سامانِ حرب و ضرب خرید نے کے لیے اسلامی دفاعی فنڈ میں زکاۃ کامال دینا جائز ہے، چنانچہ محمد بن عبد الحکم فرماتے ہیں :
[1] کتاب الأموال لأبي عبید، رقم: 556۔ [2] سنن أبي داود، الزکاۃ، باب من یجوز لہ أخذ الصدقۃ و ہو غني، حدیث: 1635۔