کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 135
کی ادائیگی کی ذمے داری اٹھائی ہو، وہ صاحب حیثیت بھی ہو تب بھی اس پر پڑنے والے تاوان کی ادائیگی کی حد تک اس کے ساتھ زکاۃ کی رقم سے تعاون کرنا جائز ہے۔ اسلام کی یہ سہولت بھی رفع نزاعات کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ آج کل اکثر امراء اس مد زکاۃ کو خاص اہمیت نہیں دیتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ زکاۃ صرف فقیر اور مسکین قسم ہی کے لوگوں کاحق ہے اور مقروض عام طور پر سفید پوش ہوتا ہے، وہ فقیر ہوتا ہے نہ فقیروں والی حالت ہی میں رہتا ہے، وہ سالہاسال تک قرض کے بوجھ تلے کراہتا رہتا ہے لیکن اہل ثروت کے نزدیک وہ مستحق زکاۃ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کو حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا یہ قول یادر کھنا چاہیے، انہوں نے اپنے عمالِ حکومت کو یہ فرمان جاری کیا کہ وہ مقروضوں (غارمین) کے قرض ادا کریں ، تو انہیں کہا گیا: ((إِنَّا نَجِدُ الرَّجُلَ لَہُ الْمَسْکَنُ وَالْخَادِمُ وَالْفَرَسُ وَالْأَثَاثُ، فَکَتَبَ عُمَرُ: إِنَّہُ لَا بُدَّ لِلْمَرْئِ الْمُسْلِمِ مِنْ مَّسْکَنِ یَّسْکُنُہُ وَ خَادِمٍ یَّکْفِیہِ مِہْنَتُہُ وَ فَرَسٍ یُّجَاہِدُ عَلَیْہِ عَدُوَّہُ، وَ مِنْ أَنْ یَّکُونَ لَہُ الْأَثَاثُ فِي بَیْتِہِ، نَعَمْ فَاقْضُوا عَنْہُ فَإِنَّہُ غَارِمٌ)) ’’ہم دیکھتے ہیں کہ (مقروض) آدمی کے پاس گھر ہے، خادم ہے، گھوڑا ہے اور گھریلو سامان بھی ہے (کیا ایسے مقروض شخص کو بھی ہم قرض کی ادائیگی کے لیے زکاۃ دیں ؟) حضرت عمر بن عبد العزیز نے انہیں لکھا، ایک مسلمان آدمی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس گھر ہو جس میں وہ رہائش رکھتا ہو، خادم ہو جو اس کے کام کاج میں اس کا ہاتھ بٹاتا ہو اور گھوڑا ہو جس پر سوار ہوکر وہ اپنے دشمن سے لڑتا ہو۔ نیز اس کے گھر میں گھریلو سامان بھی ہو۔ اس سب