کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 132
جیسے کوئی نہایت بااثر غیر مسلم شخص ہے، اگر اس کی تالیف قلب (دلجوئی) کا اہتمام کردیاجائے تو یہ امید ہو کہ یہ شخص وہاں پر آباد مسلمانوں کی حفاظت کے لیے مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے، تو اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لیے ایسے شخص کو زکاۃ کی رقم دی جاسکتی ہے، چاہے وہ مال دار بھی ہو۔ اسی طرح وہ نو مسلم اور ضعیف الایمان افراد بھی اسی ذیل میں آتے ہیں جن کی اگر دل جوئی اور مالی اعانت نہ کی جائے، تو ان کے اسلام سے منحرف ہوجانے کا خطرہ ہو۔ ہمارے ملک میں اس مدّ میں خرچ کرنے کی بڑی ضرورت ہے۔ بہت سے عیسائی مسلمان ہوتے ہیں ، ان کے خاندان والے ان کا بائیکاٹ کردیتے ہیں اور وہ شدید معاشی اور معاشرتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں جن سے گھرا کر بعض دفعہ وہ دوبارہ عیسائیت کی طرف لوٹ جاتے ہیں یا گداگری کو اختیار کر لیتے ہیں ، ظاہر بات ہے کہ یہ دونوں ہی باتیں صحیح نہیں ہیں ۔ لیکن اس میں ہم مسلمانوں کی کوتاہی کا بہت دخل ہے حالانکہ مصارف زکاۃ کی اس مد (مؤلفۃ القلوب) سے ایسے نومسلموں کی معقول مدد کی جاسکتی ہے جس سے ان کے ارتداد کے خطرے کا بھی سدّ باب ہو سکتا ہے اور ان کے گداگری اختیار کرنے کا بھی۔ اس مد سے ان کے لیے مستقل ادارہ قائم کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چاہیے جہاں سے ان کی کفالت کا اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا اور ان کی اسلامی تربیت کا اہتمام ہو تاکہ وہ معاشی پریشانی سے بھی محفوظ ہوں اور گمراہانہ عقائد و اعمال سے بھی محفوظ رہیں ۔ یا ایسے مائل بہ اسلام کافر، جو مالی اعانت سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوجائیں ۔ ایسے لوگوں کے لیے بھی یہ شرط نہیں ہے کہ وہ فقیر و مسکین ہوں تب ہی ان کی مدد زکاۃ کی مد