کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 131
اسی وصول شدہ زکاۃ کی رقم سے وصولی اور تقسیم کے اخراجات وضع کرنے کی سہولت دے کر اس نظام کو قائم کرنے کے لیے بہت بڑی آسانی فراہم کردی ہے۔ آج کل کی مسلمان حکومتیں ہی اس سہولت سے فائدہ نہ اٹھائیں ، تو یہ کتنی حرماں نصیبی کی بات ہے۔ اکثر مسلمان مملکتوں میں غربت و ناداری اور گداگری کی لعنت عام ہے۔ اگر یہ مملکتیں صلاۃ و زکاۃ کے نظام کا اہتمام کریں ، تو بیرونی ملکوں اور اداروں سے انہیں قرض لینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے جس نے ہماری آزادی و خودمختاری کو مشکوک بنادیاہے۔ کیونکہ ان مملکتوں میں دو مسئلے سب سے زیادہ گھمبیر اور بہت زیادہ وسائل کے متقاضی ہیں ۔
ایک غربت و ناداری کا خاتمہ، دوسرے، ہر وقت جنگ کے لیے تیار رہنے کے لیے (جیسا کہ قرآنی حکم، ﴿ وَأَعِدُّوا لَهُم﴾ الآیۃ کا تقاضا ہے) آلاتِ حرب وضرب کی وسیع پیمانے پر تیاری اور فراہمی۔ اللہ تعالیٰ نے فقراء و مساکین کو زکاۃ کے مصارف میں شامل کرکے غربت و ناداری کے خاتمے کے لیے ایک بہت بڑی بنیاد فراہم فرمادی ہے، جس سے کوئی مسلمان مملکت کام لینا چاہے تو اس ضمن میں بہت کچھ کرسکتی ہے۔ اسی طرح فی سبیل اللہ کو (جس سے جہاد اور اس کی ضروریات مراد ہیں ) مصرفِ زکاۃ قرار دے کر اس بڑے خرچ کا بھی انتظام فرمادیا ہے(جیسا کہ فی سبیل اللہ کے بیان میں اس کی کچھ تفصیل آگے آرہی ہے۔)
4. مؤلفۃ القلوب اور اس کے اطلاقات
یہ زکاۃ کا چوتھا مصرف ہے۔ اس کا مطلب ہے، تالیف قلب (دل جوئی، دل داری) کے لیے کسی کو کچھ دینا۔