کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 130
اسی نقطۂ نظر سے جس کی وضاحت ’’فقہ الزکاۃ‘‘ کے مصنف حفظہ اللہ نے کی ہے، نواب صدیق حسن خان نے بھی فی سبیل اللہ کے مفہوم میں علمائے دین کو شامل کیا ہے، چاہے وہ مال دار ہی ہوں اور کہاکہ ان پر زکاۃ کی رقم خرچ کرنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ بہتر ہے، کیونکہ ان کے ذریعے ہی سے دین اسلام کا تحفظ اور شریعت کی بقا ممکن ہے۔ ان کے اصل الفاظ حسب ذیل ہیں : ((وَمِنْ جُمْلَۃِ سَبِیْلِ اللّٰہِ، الصَّرْفُ فِي الْعُلَمَائِ الَّذِینَ یَقُومُونَ بِمَصَالِحِ الدِّینِیَّۃِ، فَإِنَّ لَہُمْ فِي مَالِ اللّٰہِ نَصِیبًا، سَوَائً کَانُوا أَغْنِیَائَ أَوْ فُقَرَائَ، بَلِ الصَّرْفُ فِي ہٰذِہِ الْجِہَۃِ مِنْ أَہَمِّ الْأُمُورِ، لِأَنَّ الْعُلَمَائَ وَرَثَۃُ الْأَنْبِیَائِ وَ حَمَلَۃُ الدِّیْنِ، وَ بِہِمْ تُحْفَظُ بَیْضَۃُ الإِْسْلَامِ وَ شَرِیعَۃُ سَیِّدِ الْأَنَامِ…)) 3. عاملینِ زکاۃ: اس سے مراد وہ افرادہیں جو ادارۂ خلافت یا کسی ادارۂ مسلمین کی طرف سے زکاۃ وصول کرنے،وصول شدہ کی حفاظت کرنے اور ان کا حساب کتاب لکھنے اور انہیں تقسیم کرنے پر مامور ہوں ۔ ایسے لوگ چاہے صاحب حیثیت ہوں ، زکاۃ کی رقم سے ان کو ان کے اس کام (وصولیٔ صدقات) کی اجرت دی جاسکتی ہے۔ [1] زکاۃ کی وصولی اور تقسیم کا کام اگر سرکاری طور پر ہو، تو اس نظام سے جہاں ایک طرف معاشرے سے غربت وناداری کے خاتمے کا کام نہایت مؤثر طریقے سے لیا جاسکتا ہے، وہاں دوسری طرف یہ کام نہایت وسیع پیمانے پر انتظامات کا بھی متقاضی ہے جس کے لیے دفاتر سے لے کر افراد تک کا انتظام کرنانا گزیر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے
[1] الروضۃ الندیۃ: 501/1، بتحقیق محمد صبحي حسن حلاق، صنعاء، یمن ۔