کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 129
حلال نہ کرسکتا ہو، تو اسے بقدر ضرورت زکاۃ دی جاسکتی ہے اور اس کے فریضۂ حصولِ علم کی تکمیل کے لیے کتابوں کے لیے بھی زکاۃ دی جاسکتی ہے، اس لیے کہ طلب علم دین فرض کفایہ ہے اور اس کے علم کا فائدہ خود اس تک محدود نہیں ہے، بلکہ تمام امت کے لیے ہے اور یہ اس کا حق بنتا ہے کہ مالِ زکاۃ میں سے اس کی مدد کی جائے، کیونکہ زکاۃ کے مصارف کے دو پہلو ہیں کہ یا تو مسلمانوں میں جو محتاج ہو اسے دی جائے یا جس سے مسلمانوں کی ضرورت وابستہ ہو اسے دی جائے اور یہاں دونوں باتیں جمع ہیں ۔‘‘[1]
آگے چل کر فاضل مصنف علامہ یوسف القرضاوی علم نافع کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’یہی وجہ ہے کہ فقہائے اسلام نے تحریر کیا ہے کہ جو شخص اپنے تمام اوقات حصولِ علم میں لگائے ہو، اسے زکاۃ دی جائے گی۔ جبکہ جو شخص اپنے تمام اوقات عبادت میں لگا دے تو اسے زکاۃ نہیں دی جائے گی، اس لیے کہ اسلام میں عبادت کے لیے تمام اوقات لگانے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ حصولِ علم میں جملہ اوقات کھپانے کی حاجت ہے۔ نیز یہ کہ عابد کی عبادت اس کی ذات کے لیے ہوتی ہے اور عالم کے علم سے سب لوگ مستفید ہوتے ہیں ۔ فقہاء نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ تنگ دست طالب علم کو مد زکاۃ میں سے کتب علم لینا جائز ہے اور اس میں دین اور دنیا دونوں کی مصلحت ہے۔‘‘[2]
[1] اردو ترجمہ: فقہ الزکاۃ،ج: 2، ص: 32، طبع: دوم، 1984ء ۔
[2] فقہ الزکاۃ، اردو: 44/2، بحوالہ المجموع: 190/6، الإنصاف في الفقہ الحنبلي: 218,165/3۔