کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 128
’’مسکین تو وہ ہے جو سوال کرنے سے بچتا ہے، اگر چاہو تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پڑھ لو۔‘‘ ’’وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے۔‘‘[1]
مذکورہ بالا آیت وحدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جو علماء و طلباء اپنے آپ کو علم دین کے سکھانے اور اس کی نشرواشاعت کے لیے وقف کردیں او رکاروباری مصروفیتوں پر تعلیم و تعلّم کو ترجیح دیں ، ان کی حاجات و ضروریات بھی زکاۃ کی مد سے پوری کی جاسکتی ہیں ۔ اور ان کی علمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے دینی و علمی کتابیں بھی اس فنڈ ہی سے خرید کر انہیں دی جاسکتی ہیں ، چنانچہ زمانۂ حال کے ایک مصری فاضل علامہ یوسف القرضاوی نے بھی اپنی کتاب ’’فقہ الزکاۃ‘‘ میں اسی رائے کا اظہار کیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
((فَإِذَا مَا تَفَرَّغَ لِطَلَبِ عِلْمٍ نَافِعٍ وَتَعَذَّرَ الْجَمْعُ بَیْنَ الْکَسْبِ وَ طَلَبِ الْعِلْمِ فَإِنَّہُ یُعْطٰی مِنَ الزَّکَاۃِ قَدْرَ مَا یُعِینُہُ عَلٰی أَدَائِ مُہِمَّتِہِ وَ مَا یُشْبِعُ حَاجَاتِہِ وَ مِنْہَا کُتُبُ الْعِلْمِ الَّتِي لَا بُدَّ مِنْہَا لِمَصْلَحَۃِ دِینِہِ وَ دُنْیَاہُ وَ إِنَّمَا أُعْطِيَ طَالِبُ الْعِلْمِ لَأَنَّہُ یَقُومُ بِفَرْضِ کِفَایَتِہِ وَلِأَنَّ فَائِدَۃَ عِلْمِہِ لَیْسَتْ مَقْصُورَۃً عَلَیْہِ بَلْ ہِيَ لِمَجْمُوعِ الْأُمَّۃِ، فَمِنْ حَقِّہِ أَنْ یُّعَانَ مِنْ مَّالِ الزَّکَاۃِ لِأَنَّہَا لِأَحَدِ رَجُلَیْنِ، إِمَّا لِمَنْ یَّحْتَاجُ مِنَ الْمُسْلِمِینَ أَوْ لِمَنْ یَّحْتَاجُ إِلَیْہِ الْمُسْلِمُونَ، وَ ہٰذَا قَدْ جَمَعَ بَیْنَ الْأَمْرَیْنِ))
’’اگر کوئی شخص علم نافع کی طلب میں لگا ہوا ہے اور حصولِ علم کے ساتھ وہ کسب
[1] صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4539۔