کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 126
باوجود اپنی عزت نفس اور وقار کا احساس ہوتا ہے اور وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی، لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنا گوارا نہیں کرتا۔ علاوہ ازیں اپنی حالت بھی مسکین اور عاجزوں والی بناکر نہیں رکھتا کہ لوگ اس کی حالت زار کو دیکھ کر از خود ہی اس کی امداد کردیں ۔
اس اعتبارسے اس میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جنہیں آج کل سفید پوش کہا جاتاہے جو اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے تنگی ترشی کے ساتھ اپنا وقت پاس کرلیتے ہیں لیکن کسی سے اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں نہ ایسا بھیس ہی بناتے ہیں جو ان کی عسرت و ناداری کا غماز ہو۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکین کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
((لَیْسَ الْمِسْکِینُ الَّذِي یَطُوفُ عَلَی النَّاسِ، تَرُدُّہُ اللُّقْمَۃُ وَاللُّقْمَتَانِ وَالتَّمْرَۃُ وَالتَّمْرَتَانِ، وَلٰکِنَّ الْمِسْکِیْنَ الَّذِي لَا یَجِدُ غِنًی یُّغْنِیہِ، وَلَا یُفْطَنُ لَہُ فَیُتَصَدَّقُ عَلَیْہِ وَلَا یَقُومُ فَیَسْأَلُ النَّاسَ))
’’مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں (کے گھروں ) کا طواف کرتا ہے او رلقمہ اور دو لقمے اور کھجور اور دو کھجوریں لے کر لوٹ جاتا ہے۔ لیکن مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس اتنا مال بھی نہ ہو جو اسے کفایت کر جائے (اور وہ اسے لوگوں سے بے نیاز کردے) اور نہ ظاہری حالت سے وہ پہچانا جائے کہ صدقہ و خیرات سے اسے نوازاجائے اور نہ وہ خود کھڑا ہوکر لوگوں سے سوال کرے۔‘‘[1]
[1] صحیح البخاري، الزکاۃ، باب: 53، حدیث: 1479۔