کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 123
کر دوسوبکریاں ہوگئیں ، تو اب اسے دو بکریاں زکاۃ کے طور پر دینی پڑیں گی۔ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ 2. مالِ مستفاد اسی جنس سے ہو جس جنس کی اس نے پہلے زکاۃ ادا کی۔ لیکن دورانِ سال میں ملنے والا یہ مال اس مال کا نفع یا اس کے پاس موجود جانوروں سے تولد پذیر ہونے والا نہ ہو۔ بلکہ اس نے الگ سے یہ مال خریدا ہو، یا ورثے یا ہبے میں اسے ملا ہو۔ اس کی بابت بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے بھی پہلی صورت کی طرح پچھلے مال سے ملادیں گے اور سال پورا ہونے پر سب کی زکاۃ نکالیں گے۔ لیکن یہ رائے صحیح نہیں ۔ دوسری صورت کا یہ مال چونکہ پہلے مال کا نفع یا نتیجہ نہیں ، بلکہ اس کی الگ مستقل حیثیت ہے، اس لیے اس پر زکاۃ اس وقت عائد ہو گی جب اس پر الگ سال گزرے گا۔ مذکورہ حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ 3. مالِ مستفاد، اس کے پاس موجود مال کی جنس سے نہ ہو۔ مثلًا اس کے پاس بکریاں تھیں ، جن کی اس نے زکاۃ ادا کردی تھی، اب 7,6 مہینے کے بعد اسے کچھ اونٹ یا گائیں مل گئیں ۔ اگر ملنے والا یہ مال اتنی تعداد میں ہے کہ وہ زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جاتا ہے تو اس کی زکاۃ اس کا سال الگ پورا ہونے پر ادا کی جائے گی، پہلے مال کے ساتھ ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ان آخری دونوں صورتوں میں مذکورہ حدیث کا انطباق ہوتا ہے۔ یہاں دونوں صورتوں میں صاحب مال اپنی خوشی سے پہلے مال کے ساتھ ہی ان کی بھی زکاۃ ادا کردیتا ہے، تو بات اور ہے، خوشی سے بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا مرغوب اور پسندیدہ ہی ہے۔ تاہم شرعًا وہ ایسا کرنے کا پابند نہیں ہے۔