کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 122
آپ کو سابقہ پیش آجاتا ہے کہ کئی سال آپ کو رقم وصول نہیں ہوتی تو ایسی ڈوبی ہوئی رقم کی زکاۃ سال بہ سال دینی ضروری نہیں ۔ جب رقم وصول ہوجائے، اس وقت ایک سال کی زکاۃ ادا کردی جائے، وہ جب بھی وصول ہو۔ مالِ مستفاد کی مختلف صورتیں اور ان کے احکام حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنِ اسْتَفَادَ مَالًا فَلَا زَکاۃَ عَلَیْہِ حَتَّی یَحُولَ عَلَیْہِ الْحَوْلُ عِنْدَ رَبِّہِ)) ’’جس کو مالِ مستفاد ملا تو اس میں زکاۃ نہیں ، یہاں تک کہ اس میں اس کے مالک کے پاس سال گزر جائے۔‘‘[1] مالِ مستفاد کا مطلب، دوران سال میں حاصل ہونے والا مال ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں ۔ 1. مالِ مستفاد اس کے پاس موجود مال کا نفع اور اسی کا ثمرہ ہو۔ جیسے تجارت کے ذریعے سے حاصل ہونے والا نفع، یا جانوروں سے دورانِ سال میں ہونے والے بچے۔ سال پورا ہونے پر یہ نفع اور جانوروں کے بچے بھی شامل ہوں گے، ان کا الگ حساب نہیں ہوگا۔ جیسے پہلے مثلاً اس نے 50 ہزار روپے کی زکاۃ دی تھی سال پورا ہونے تک اس کے پاس 50 کی بجائے 60یا 70 ہزار روپے ہوگئے، اب اسے 60 یا 70 ہزار کی زکاۃ ادا کرنی ہوگی اسی طرح مثلاً اس نے پہلے ایک بکری زکاۃ میں دی تھی، کیونکہ اس کے پاس 120 یا اس سے کچھ زائد تھیں ، آئندہ سال پورا ہونے تک بچے ملا
[1] جامع الترمذي، الزکاۃ، باب 10، حدیث: 632، و انظر الإرواء: 258-254/3۔