کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 121
طرف اشارہ کیا ہے جو امام مجاہد اور امام شعبہ سے مروی ہیں جن میں انہوں نے ’ما کسبتم‘ کی تفسیر تجارت سے اور’مما اخرجنا لکم من الارض‘ کی تفسیر پھلوں سے کی ہے، یعنی غلہ، کھجور وغیرہ ہر پیداوار میں زکاۃ ہے۔‘‘[1] مالِ تجارت میں زکاۃ کی ادائیگی کا طریقہ اموالِ تجارت میں زکاۃ کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ سال بسال جتنا تجارتی مال دکان، مکان یا گودام وغیرہ میں ہو، اس کی قیمت کا اندازہ کر لیاجائے۔ علاوہ ازیں جتنی رقم گردش میں ہو اور جو رقم موجود ہو، اس کو بھی شمار کرلیا جائے۔ نقد رقم، کاروبار میں لگا ہوا، (یعنی زیر گردش) سرمایہ اور سامانِ تجارت کی تخمینی قیمت، سب ملاکر جتنی رقم ہو، اس پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکاۃ ادا کی جائے۔ تاہم کوئی تجارتی مال اس طرح کا ہے کہ وہ اکٹھا خریدا، پھر وہ سال یا دو سال فروخت نہیں ہوا، تو اس مال کی زکاۃ اس کے فروخت ہونے پرصرف ایک سال کی اداکی جائے گی۔ ورنہ عام مال جو دکان میں فروخت ہوتا رہتا ہے اور نیا اسٹاک آتا رہتا ہے، وہاں چونکہ فردًا فردًا ایک ایک چیز کا حساب مشکل ہے، اس لیے سال بعد سارے مال کی بہ حیثیت مجموعی قیمت کا اندازہ کرکے زکاۃ نکالی جائے۔ مُنجمد یا ڈوبی ہوئی رقم کا حکم اگر کوئی رقم کسی کاروبار میں منجمد ہوگئی ہو، جیسا کہ بعض دفعہ ایسا ہوجاتا ہے اور وہ رقم دو تین سال یا اس سے زیادہ دیر تک پھنسی رہتی ہے، یا کسی ایسی پارٹی کے ساتھ
[1] فتح الباري، الزکاۃ، باب مذکور، حدیث: 1445سے قبل، ص: 388,387، طبع دارالسلام ۔