کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 12
کی سی ہے جو سات بالیاں اگاتا ہے، ہر بالی میں سودانے ہوں اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے (اس سے بھی زیادہ) بڑھادیتا ہے۔‘‘[1] قرآن کریم کی ان تمام آیات میں انفاق فی سبیل اللہ، یعنی زکاۃ و صدقات کو مال میں اضافے کا سبب بتلایا گیا ہے۔ یہ اضافہ، جیسا کہ پہلے بتلایا جاچکا ہے، ظاہری اور حقیقی طور پربھی ہوسکتا ہے۔ (جیسا کہ اس کی بہت سی مثالیں ہمارے تجربہ و مشاہدہ کا حصہ ہیں ) اور معنوی طور پر بھی ہوسکتا ہے اور اس کے بھی بہت سے نمونے دیکھنے میں آتے ہیں ۔ اور قیامت کے دن اجرو ثواب کے اعتبار سے تو یہ اضافہ ہر صورت میں ہر ایک کے لیے ہی ہوگا بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ حلال مال میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا گیا ہوگا۔ جیسے ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا یَتَصَدَّقُ أَحَدٌ بَتَمْرَۃٍ مِّنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ، إِلَّا أَخَذَہَا بِیَمِینِہِ، فَیُرَبِّیْہَا کَمَا یُرَبِّيْأَحَدُکُمْ فَلُوَّہُ أَوْ قَلُوْصَہُ، حَتَّی تَکُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ، أَوْ أَعْظَمَ)) ’’جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور بھی صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ لیتا ہے، پھر اسے بڑھاتاہے جیسے تمہارا آدمی اپنے بچھیرے (گھوڑی کے بچے) یا اونٹنی کے بچے کو پالتا ہے، یہاں تک کہ وہ کھجور، پہاڑ کی طرح یا اس سے بھی بڑی ہوجاتی ہے۔‘‘[2]
[1] البقرۃ 261:2۔ [2] صحیح مسلم، الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب و تربیتہا، حدیث: 1014۔