کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 117
نصاب کو پہنچ جائیں تو زکاۃ نکالنی چاہیے۔اہلحدیث علماء میں مولانا حافظ محمد عبد اللہ صاحب محدث روپڑی رحمہ اللہ کی رائے بھی یہی ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کا موقف بھی یہی ہے۔ (موسوعۃ الفقھیۃ المیسرۃ: 21/3) تاہم دوسرے ائمہ کے نزدیک یہ صحیح نہیں ۔ جب تک اپنے اپنے طور پر ہر چیز نصاب کو نہ پہنچ جائے، اس میں زکاۃ عائد نہیں ہوگی۔ دو مختلف چیزوں کو ملاکر نصاب بنانے کی صراحت کسی حدیث سے ثابت نہیں ، اس لیے مختلف چیزوں کو ملاکر نصاب بنانا شرعًا صحیح نہیں ، عام علمائے اہلحدیث اسی مسلک کو زیادہ صحیح اور راجح سمجھتے ہیں ۔
زیورکی زکاۃ
سونا چاندی کے زیور کی زکاۃ میں بھی کچھ اختلاف ہے۔ بعض علماء اس میں زکاۃ کی فرضیت کے قائل نہیں ، جبکہ علماء اہلحدیث کی اکثریت زیور میں زکاۃ کی قائل ہے، دلائل کے اعتبار سے اور احتیاط کے لحاظ سے بھی یہی مسلک زیادہ صحیح ہے۔ زیور کی زکاۃ دونوں طریقوں سے نکالی جاسکتی ہے۔ زیور سے چالیسواں حصہ سونا یا چاندی بطورِ زکاۃ نکال دیا جائے یا چالیسویں حصے کی قیمت ادا کردی جائے، دونوں طرح جائز ہے۔ تاہم کسی کے پاس اگر حد نصاب (7 تولہ سونا یا چاندی 51 تولہ) سے کم زیور ہے، تو اس پر زکاۃ عائد نہیں ہوگی۔
ملحوظہ: اس کی مزید تفصیل خواتین سے متعلقہ مسائلِ زکاۃ میں ملاحظہ فرمائیں ۔
زیور کی زکاۃ کے لیے نقد رقم نہ ہو تو؟
اگر کسی کے پاس اتنا زیور ہے کہ وہ نصاب کو پہنچ جاتا ہے یا اس سے بھی زیادہ ہے