کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 103
مُسِنَّہ۔ اس حساب سے چالیس سے زائد گایوں پر زکاۃ عائد نہیں ہوگی، تا آنکہ ان کی تعداد ستر ہو جائے۔ 70 گایوں پر مذکورہ حساب سے ایک بچھڑا اور ایک مسنہ زکاۃ عائد ہوگی اور 80 گایوں پر دو مسنے۔ وعلی ہذا القیاس۔[1]
اس میں بھی گائے اور بھینس مل کر نصاب کو پہنچ جائیں گے، تو زکاۃ لازم ہوگی، کیونکہ یہ دونوں بھی جنس کے اعتبار سے ایک ہی ہیں ۔
3. گھوڑے
گھوڑوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح طور پر کچھ منقول نہیں ہے۔ بعض روایات میں گھوڑوں کا حق ادا کرنے کا جو ذکر ہے تو اس سے مراد انہیں جہاد کے لیے استعمال کرنا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ غلام اور گھوڑے پر زکاۃ نہیں ۔[2]
تو اس سے مراد بھی وہ گھوڑے ہیں جو جہاد میں کام آتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گھوڑوں کا یہی سب سے بڑا مصرف اور مقصد تھا، اس لیے آپ نے انہیں زکاۃ سے مستثنیٰ فرمادیا۔ علاوہ ازیں یہ زیادہ تعداد میں بھی نہیں ہوتے، اس لیے بھی ان کا نصاب اور ان میں زکاۃ کی شرح کا تعین نہیں کیا گیا۔ تاہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بابت صراحت ہے کہ انہوں نے بعض لوگوں کی خواہش پر گھوڑوں میں زکاۃ لی۔ بنابریں اکثر علماء اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کہیں گھوڑے بھی تجارت کے لیے پالے جاتے ہوں اور وہ معلوفہ نہ ہوں ، یعنی ان کی خوراک کا انتظام مالک کی طرف سے نہ ہو، بلکہ
[1] الروضۃ الندیۃ شرح الدرر البہیۃ،ج: 1، ص: 467، طبع جدید۔
[2] صحیح البخاري، الزکاۃ، باب لیس علی المسلم فی عبدہ صدقۃ، حدیث: 1464۔