کتاب: زکوۃ ، عشر اور صدقۃالفطر فضائل احکام و مسائل - صفحہ 10
﴿ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا ﴾ ’’(اے پیغمبر!) ان کے مالوں سے صدقہ لے کر اس کے ذریعے سے ان کی تطہیر اور ان کا تزکیہ کریں ۔‘‘[1] اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ و صدقات سے انسان کو طہارت و پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ طہارت کس چیز سے؟ گناہوں سے بھی اور اخلاق رذیلہ سے بھی۔ مال کی زیادہ محبت انسان کو خود غرض، ظالم، متکبر، بخیل، بددیانت وغیرہ بناتی ہے جبکہ زکاۃ، مال کی شدتِ محبت کو کم کرکے اسے اعتدال پر لاتی ہے اور انسان میں رحم وکرم، ہمدردی و اخوت، ایثار و قربانی اور فضل و احسان کے جذبات پیدا کرتی ہے۔ علاوہ ازیں جب انسان اللہ کے حکم پر زکاۃ ادا کرتا ہے، تو اس سے یقینا اس کے گناہ بھی معاف ہوتے ہیں ۔ ﴿ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾ ’’بلاشبہ نیکیاں ، برائیوں کو دور کردیتی ہیں ۔‘‘[2] زکاۃ کے دوسرے معنی بڑھوتری اور اضافے کے ہیں ۔ زکاۃ ادا کرنے سے بظاہر تو مال میں کمی واقع ہوتی نظر آتی ہے، لیکن حقیقت میں اس سے اضافہ ہوتا ہے، بعض دفعہ تو ظاہری اضافہ ہی اللہ تعالیٰ فرمادیتا ہے، ایسے لوگوں کے کاروبار میں ترقی ہوجاتی ہے۔ اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو مال میں معنوی برکت ضرور ہوجاتی ہے۔ معنوی برکت کا مطلب ہے خیروسعادت کے کاموں کی زیادہ توفیق ملنا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندوں سے نیکی کے کام خوب کرواتا ہے، یہ اپنے تھوڑے سے مال سے مساجد و مدارس تعمیر کرتے یا ان کی تعمیر میں تعاون کرتے ہیں ، معاشرے کے نادار اور بے سہارا افراد کی
[1] التوبۃ 103:9۔ [2] ہود: 114:11۔