کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 97
سوال یہ ہے کہ ان فتنوں میں ایک مسلمان کا کردار کیا ہونا چاہئے اوراسے ان سے بچنے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟ اِس سلسلے میں ہم چند گزارشات قرآن وحدیث کی روشنی میں عرض کرتے ہیں : 1۔فتنوں سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا ہر مسلمان کو فتنوں سے بچنے کیلئے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنی چاہئے۔کیونکہ اللہ تعالی کے سوا اور کوئی نہیں جو ان فتنوں سے بچا سکے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ )) ’’ تم تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرو، ان میں سے جو ظاہر ہوں ان سے بھی اور جو باطن ہوں ان سے بھی۔‘‘ چنانچہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : ( نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ) ’’ ہم تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں، ان میں سے جو ظاہر ہوں ان سے بھی اور جو باطن ہوں ان سے بھی۔‘‘[1] اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالی نے اِس بات کی تعلیم دی کہ ((یَامُحَمَّدُ!إِذَا صَلَّیْتَ فَقُلْ: اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنَ،وَإِذَا أَرَدتَّ بِعِبَادِکَ فِتْنَۃً فَاقْبِضْنِی إِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُون)) [2] ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! جب آپ نماز پڑھ لیں تو یہ دعا پڑھا کریں : اے اللہ ! میں تجھ سے نیکیاں کرنے اور برائیوں کو چھوڑنے اور مسکینوں سے محبت کا سوال کرتا ہوں۔اور جب تو اپنے بندوں کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے اُس میں مبتلا کئے بغیر میری روح کوقبض کر لینا۔‘‘ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا : (( تَکُوْنُ فِتْنَۃٌ لَا یُنْجِیْ مِنْہَا إِلَّا دُعَائٌ کَدُعَائِ الْغَرِیْقِ )) [3] ’’ جب فتنہ واقع ہوتا ہے تو اس سے ایسی دعا نجات دلا سکتی ہے جیسی دعا پانی میں غرق ہونے والا کرتا ہے۔‘‘ 2۔عقیدۂ توحید پر ثابت قدم رہنا فتنوں کے دور میں مسلمان کو عقیدۂ توحید پر ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے قائم رہنا چاہئے۔کیونکہ یہی
[1] صحیح مسلم :2867 [2] جامع الترمذی :3233،3234۔وصححہ الألبانی [3] مصنف ابن ابی شیبۃ:7 /531