کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 94
’’ کون حُجروں والیوں ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں ) کو جگائے گا تاکہ وہ نماز پڑھ لیں، دنیا میں لباس پہننے والی کئی عورتیں آخرت میں برہنہ ہونگی ! ‘‘[1]
اِس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ عبادت کے ذریعے انسان فتنوں کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ میں آسکتا ہے۔
٭ خصوصا قیامت سے پہلے ایسے فتنے واقع ہونگے کہ جو گرمی کے موسم میں چلنے والے ہوا کے تیز جھکڑ کی طرح آئیں گے اور وقت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا پر چھا جائیں گے۔اور اُن میں سے بعض فتنے ایسے ہوں گے جو سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے آئیں گے اور ہر چیز کو بہا لے جائیں گے۔اُن فتنوں کے دور میں حق وباطل کا اختلاط اِس انداز سے ہوگا کہ کسی کو پتہ نہیں چلے گا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ! اُن میں دلوں کو بری طرح جھنجھوڑ ا جائے گا، وہ تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح آئیں گے جن میں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔چنانچہ اِس طرح کے فتنوں میں ایک شخص صبح کے وقت مومن ہوگا تو شام تک کافر ہو جائے گا۔اور اگر شام کے وقت مومن ہوگا تو صبح تک کافر ہوجائے گا۔والعیاذ باللہ
اور قیامت سے پہلے آنے والے سنگین فتنے پے درپے آئیں گے، جو فتنہ بعد میں آئے گا وہ پہلے آنے والے فتنے سے کہیں زیادہ سنگین ہوگا۔
٭ یاد رہے کہ بعض فتنے ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ تعالی اہل ایمان کی آزمائش کرنا چاہتا ہے کہ کیا یہ ایمان پر ثابت قدم رہتے ہیں یا ایمان کو چھوڑ کر کفر کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے : ﴿ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ ٭ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ ﴾[2]
’’ کیا لوگوں نے یہ گمان کر لیا ہے کہ اگر انھوں نے یہ کہہ دیا کہ ’ہم ایمان لائے ‘تو انھیں چھوڑ دیا جائے گا اور ان کی آزمائش نہ ہوگی ؟ حالانکہ ہم نے ان لوگوں کو بھی آزمایا تھا جو ان سے پہلے تھے۔اللہ ضرور یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ ان میں سے سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔‘‘
اور اگر ہم اِس امت کے اولین لوگوں کے حالات کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اِس طرح کی کڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔حتی کہ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں ایک چادر پہ تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔اُس
[1] صحیح البخاری : 7069
[2] العنکبوت29 :2۔3