کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 8
قبولیت ِ اعمال میں اخلاص کا اثر
اہم عناصرِ خطبہ :
1۔قبولیت عمل صالح کی شروط 2۔اخلاص کا مفہوم
3۔اخلاص کی اہمیت 4۔اخلاص کی علامات
5۔مختلف اعمال میں اخلاص کی اہمیت 6۔اخلاص کے ثمرات
7۔ریاکاری : اعمال صالحہ کے لیے مہلک !
پہلا خطبہ
محترم حضرات ! کسی بھی عبادت اورعمل صالح کی قبولیت کیلئے تین شرائط ہیں :
۱۔پہلی شرط یہ ہے کہ عمل کرنے والا موحد ہو۔یعنی اللہ کی توحید کا صدق دل سے اعتراف کرتا ہو اور اس کے ساتھ کسی کو اس کا شریک نہ بناتا ہو۔کیونکہ اگر عمل کرنے والا شخص شرک کرتا ہو تو اس کے اعمال قبول نہیں کئے جاتے، بلکہ اس کے اعمال غارت اور برباد ہو جاتے ہیں۔
۲۔دوسری شرط یہ ہے کہ عمل کرنے والے شخص کی نیت اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے تقرب کو حاصل کرنا ہو۔ریاکاری اور دکھلاوا مقصود نہ ہو۔اِس کو ’ اخلاص‘ کہتے ہیں۔
۳۔تیسری شرط یہ ہے کہ عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق ہو۔یعنی قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔کیونکہ ایسا عمل جو قرآن وحدیث سے ثابت نہ ہو وہ نا قابل قبول ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
( مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ ) [1]
’’ جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہیں ہے تووہ مردود ہے۔‘‘
ایک اورروایت میں ارشاد فرمایا : ( مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ ) [2]
’’جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کے متعلق ہمارا کوئی حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘
آج ہمارے خطبے کا موضوع قبولیت ِعمل کی دوسری شرط یعنی ’ اخلاص ‘ہے۔
[1] صحیح البخاری:2697، صحیح مسلم:1718
[2] صحیح مسلم:1718