کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 78
تعالی سے ڈر کر برائی کا ارتکاب نہ کرے تو وہ آدمی حقیقت میں تقوی والا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی وَہَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِیَائً وَّذِکراً لِّلْمُتَّقِیْنَ ٭الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُم بِالْغَیْْبِ وَہُم مِّنَ السَّاعَۃِ مُشْفِقُونَ﴾[1] ’’یہ بالکل سچ ہے کہ ہم نے موسی ( علیہ السلام ) اور ہارون ( علیہ السلام ) کو ایسی کتاب دی جو ( حق وباطل ) میں فرق کرنے والی، روشنی پھیلانے والی اور ان پرہیزگاروں کیلئے نصیحت والی ہے جو اپنے رب سے خلوتوں میں خوف کھاتے ہیں اور قیامت ( کے تصور ) سے کانپتے ہیں۔‘‘ سامعین کرام ! آپ ان آیات میں غور کریں کہ اللہ تعالی نے ان لوگوں کو متقی قرار دیا ہے جو اپنی خلوتوں میں اپنے خالق ومالک رب تعالی سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور اسی قسم کے لوگوں کے متعلق اللہ تعالی ار شاد فرماتا ہے : ﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْبِ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ کَبِیْرٌ ﴾[2] ’’ بے شک وہ لوگ جو اپنے رب سے غائبانہ طور پر( یا خلوتوں میں ) ڈرتے رہتے ہیں ان کیلئے بخشش اور بہت بڑا اجر ہے۔‘‘ اسی طرح فرمایا : ﴿إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمَن بِالْغَیْْبِ فَبَشِّرْہُ بِمَغْفِرَۃٍ وَأَجْرٍ کَرِیْمٍ﴾[3] ’’بس آپ تو صرف ایسے شخص کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت کی اتباع کرے اور رحمٰن سے خلوتوں میں ڈرے، لہٰذا آپ اس کو مغفرت اور باوقار اجر کی بشارت دیجئے۔‘‘ لہٰذا جلوت وخلوت دونوں میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا چاہئے اور ہر حال میں اس کی نافرمانی سے اپنے دامن کو بچانا چاہئے۔یہی تقوی ہے۔ شاعر کہتا ہے : إِذَا مَا خَلَوْتَ الدَّہْرَ یَوْمًا فَلَا تَقُلْ خَلَوْتُ وَلٰکِنْ قُلْ عَلَیَّ رَقِیْبُ ’’ تم زندگی میں جب کبھی خلوت میں جاؤ تو یہ نہ کہو کہ میں خلوت میں ہوں ( اور جو مرضی کروں ) بلکہ یہ کہو کہ یہاں خلوت میں بھی میری نگرانی کرنے والا ( اللہ تعالی ) موجود ہے۔‘‘ اللہ تعالی ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرماتا ہے : ﴿ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ
[1] الأنبیاء21 :48۔49 [2] الملک67 :12 [3] یس36 :11