کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 77
چلنے والا شخص اپنے قدم پھونک پھونک کر اٹھاتا ہے۔‘‘
گویا ’تقوی‘سے مراد اپنے پورے جسم کو اللہ تعالی کی نافرمانی سے بچانا اور برائیوں سے پرہیز کرنا ہے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
’’ جو شخص اللہ تعالی سے ڈرنا اور اس کے عذاب سے بچنا چاہتا ہو تو وہ اپنے پانچ اعضاء کا خاص طور پر خیال رکھے : آنکھ، کان، زبان، دل اور پیٹ…………جب ان پانچ اعضاء کی ( گناہوں سے ) حفاظت ہو جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے باقی اعضاء کی بھی حفاظت کرلے گا۔اور تب وہ جامع تقوی کا حامل ہو گا۔‘‘
اور سہل بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : ( مَنْ أَرَادَ أَنْ تَصِحَّ لَہُ التَّقْوَی فَلْیَتْرُکِ الذُّنُوبَ کُلَّہَا )
’’ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ وہ صحیح معنوں میں متقی بن جائے تو وہ تمام گناہوں کو ترک کردے۔‘‘
اور جب ہم قرآن مجید میں متقین کی صفات پر غور کرتے ہیں، جنھیں ہم تھوڑی دیر میں ذکر کریں گے ( ان شاء اللّٰہ ) تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ’ تقوی ‘ ایک جامع لفظ ہے۔جس کا مطلب ہے اللہ تعالی کے تمام احکام واوامر پر عمل کرنا، تمام محرمات ونواہی سے بچنا اور پورے دین پر عمل کرنا۔
اسی لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:( اَلتَّقْوَی ہِیَ الْخَوْفُ مِنَ الْجَلِیْلِ،وَالْعَمَلُ بِالتَّنْزِیْلِ، وَالْاِسْتِعْدَادُ لِیَوْمِ الرَّحِیْلِ، وَالْقَنَاعَۃُ بِالْقَلِیْلِ)
’’ تقوی کا معنی ہے : اللہ تعالی سے ڈرنا، قرآن وسنت پر عمل کرنا، کُوچ کے دن کیلئے تیاری کرنا اور کم رزق پر قناعت کرنا۔‘‘
اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کے فرمان ﴿اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ﴾ کے بارے میں فرماتے ہیں :
( أَن یُّطَاعَ فَلَا یُعْصٰی، وَیُذْکَرَ فَلَا یُنْسٰی، وَیُشْکَرَ فَلَا یُکْفَر )
’’ اللہ تعالی سے کما حقہ ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے اور نافرمانی نہ کی جائے۔اسے یاد رکھا جائے اور بھلایا نہ جائے۔اس کا شکر ادا کیا جائے اور نا شکری نہ کی جائے۔‘‘
برادران اسلام ! تقوی کے بارے میں اِس پوری وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ ’تقوی ‘در حقیقت اللہ تعالی کے اُس خوف کا نام ہے جو انسان کو برائیوں اور گناہوں سے بچنے پر آمادہ کرے۔چاہے وہ لوگوں کے سامنے ہو یا لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو۔بلکہ حقیقی تقوی یہ ہے کہ جب ایک آدمی خلوت میں ہو، اسے کوئی شخص دیکھنے والا نہ ہو۔شیطان اس کیلئے برائی کو مزین کرے اور اسے اس کے ارتکاب پر آمادہ کرے۔اوراس کیلئے ایسا ماحول بنائے کہ اسے کسی قسم کا خوف وخطر لاحق نہ ہو اور وہ اطمینان سے برائی کا ارتکاب کر سکتا ہو، ایسے میں اگر وہ اللہ