کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 76
8۔متقین ہی اولیاء اللہ ہیں ’ تقوی ‘ اس قدر اہم ہے کہ جس شخص میں یہ ہو وہ متقی اور پرہیزگار ہوتا ہے۔اور ہر متقی وپرہیزگار اللہ تعالی کا دوست ہوتاہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ٭ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ ﴾[1] ’’یاد رکھو ! اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہونگے۔یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور جو (برائیوں ) سے پرہیز کرتے ہیں۔‘‘ 9۔متقی ہی اللہ تعالی کے ہاں سب سے زیادہ عزت واکرام کے لائق ہے اللہ تعالی کے نزدیک ’تقوی ‘کی اتنی اہمیت ہے کہ جس شخص میں زیادہ تقوی ہو اور جو زیادہ متقی،پرہیزگار ہو، چاہے وہ کسی رنگ ونسل کا ہو، وہ اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عزت واکرام کے لائق ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ﴾[2] ’’ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقوی والا ہو۔‘‘ حقیقت ِ تقوی عزیزان گرامی ! قرآن وحدیث کی روشنی میں تقوی کی اہمیت واضح ہونے کے بعد اب آپ میں سے ہر شخص یہ جاننا چاہتا ہوگا کہ ’ تقوی ‘ کہتے کسے ہیں ؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟ تو آئیے اس کی حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔ لفظ ’ تقوی ‘ ’وقایہ ‘سے ہے جس کا معنی ہے : بچنا، پرہیزکرنا اور جس چیز سے انسان کو خطرہ لاحق ہو اس کے اور اپنے درمیان حائل و فاصل اور رکاوٹ کھڑی کرنا۔یعنی اپنے اور گناہوں کے درمیان اللہ کے خوف کو حفاظتی دیوار کے طور پر کھڑا کرنا۔ شاعر کہتا ہے : خَلِّ الذُّنُوبَ صَغِیْرَہَا وَکَبِیْرَہَا فَہُوَ التُّقٰی وَاصْنَعْ کَمَاشٍ فَوْقَ أَرْضِ الشَّوْکِ یَحْذَرُ مَا یَرَی ’’تم چھوٹے،بڑے گناہوں سے بچو، یہی تقوی ہے۔اور اُس طرح احتیاط کرو جیسا کہ کانٹوں والی زمین پر
[1] یونس10 :62۔63 [2] الحجرات49 : 13