کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 73
’’آپ کا کیا خیال ہے، اگرچہ وہ بندہ ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سیدھی راہ پر ہے اور تقوی کا حکم دیتا ہے۔‘‘ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جن امور کو اپنی دعوت میں سر فہرست رکھا ان میں سے ایک امر ’ تقوی ‘ تھا۔ 2۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وصیتوں میں بھی ایک وصیت ’تقوی ‘کے بارے میں فرمائی۔ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ((صَلّٰی بِنَا رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم الصُّبْحَ،فَوَعَظَنَا مَوْعِظَۃً بَلِیْغَۃً،ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُونُ، وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوبُ،فَقُلْنَا:کَأَنَّہَا مَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَأَوْصِنَا،فَقَالَ:أُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ……)) [1] ’’ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھائی، پھر ہمیں ایسی موثر نصیحت فرمائی کہ جس سے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور دلوں میں دہشت پیدا ہونے لگی۔چنانچہ ہم نے گزارش کی کہ ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ الوداع کہنے والے شخص کی نصیحت ہے تو آپ ہمیں وصیت کریں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا……‘‘ 3۔اسی طرح حجۃ الوداع کے موقع پر بھی کہ جس کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر موت آگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے جم غفیر کو جو وصیت فرمائی اس میں سب سے پہلی بات یہی تھی کہ ’’تم اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا۔‘‘ جیسا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے دوران اپنی اونٹنی (الجدعاء ) پر بیٹھے ہوئے یوم النحر کو منیٰ میں خطبہ ارشاد فرما یا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کجاوے کی رکاب میں اپنے پاؤں رکھ کر کھڑے ہوئے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے بلند آواز سے فرمایا : (أَ لَا تَسْمَعُوْنَ ) کیا تم سنتے نہیں ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا : ( أَ لَا لَعَلَّکُمْ لَا تَرَوْنِیْ بَعْدَ عَامِکُمْ ہٰذَا ) ’’شاید تم مجھے آئندہ سال نہ دیکھ سکو۔‘‘ ایک آدمی جو سب سے پیچھے کھڑا تھا، کہنے لگا : تو آپ ہمیں کس بات کا حکم دیتے ہیں ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( اِتَّقُوْا اللّٰہَ رَبَّکُمْ، وَصَلُّوْا خَمْسَکُمْ، وَصُوْمُوْا شَہْرَکُمْ، وَأَدُّوْا زَکَاۃَ أَمْوَالِکُمْ، وَأَطِیْعُوْا ذَا أَمْرِکُمْ، تَدْخُلُوْا جَنَّۃَ رَبِّکُمْ ) [2]
[1] سنن أبی داؤد :4607، جامع الترمذی :2676، سنن ابن ماجہ : 42۔وصححہ الألبانی [2] مسند أحمد:486/36 :22161 و22258و22260 ( الأرناؤط)،جامع الترمذی : 616 :حسن صحیح،سنن أبی داؤد (مختصرا):1955۔وصححہ الألبانی فی صحیح سنن الترمذی وسنن ابی داؤد والسلسلۃ الصحیحۃ برقم :867