کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 66
گئی۔وہ اس لئے کہ وہ نافر مانی کرتے تھے اور اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے تھے۔وہ لوگ جس گناہ کا ارتکاب کرتے تھے اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔یقینا وہ جو کچھ کرتے تھے وہ بہت بُرا تھا۔‘‘
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں کہتے ہیں :
( أَیْ کَانَ لَا یَنْہٰی أَحَدٌ مِّنْہُمْ أَحَدًا عَنِ ارْتِکَابِ الْمَآثِمِ وَالْمَحَارِمِ،ثُمَّ ذَمَّہُمْ عَلٰی ذَلِکَ،لِیُحَذِّرَ أَن یُّرْتَکَبَ مِثْلُ الَّذِی ارْتَکَبُوہُ، فَقَالَ : لَبِئْسَ مَا کَانُوا یَفْعَلُونَ) [1]
’’ یعنی ان میں سے کوئی شخص کسی کو گناہوں اور حرام کاموں سے منع نہیں کرتا تھا۔پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی تاکہ وہ اس بات سے ڈرائے کہ ان کے گناہ جیسے گناہ کا ارتکاب کیا جائے۔چنانچہ اس نے فرمایا :
﴿لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ﴾ ’’ یقینا بہت برا ہے جو وہ کرتے تھے۔‘‘
اور امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ( قَالَ ابْنُ عَطِیَّۃَ : وَالْاِجْمَاعُ مُنْعَقِدٌ عَلٰی أَنَّ النَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ فَرْضٌ لِمَنْ أَطَاقَہُ وَأَمِنَ الضَّرَرَ عَلٰی نَفْسِہٖ وَعَلَی الْمُسْلِمِیْنَ، فَإِنْ خَافَ فَیُنْکِرُ بِقَلْبِہٖ وَیَہْجُرُ ذَا الْمُنْکَرِ وَلَا یُخَالِطُہُ ) [2]
’’ ابن عطیہ کہتے ہیں : اس بات پر اجماع ہے کہ برائی سے منع کرنا اس شخص پر فرض ہے جو اس کی طاقت رکھتا ہو اور اسے اپنے اور مسلمانوں کے نقصان کا اندیشہ نہ ہو۔اور اگر اسے اندیشہ ہو تو اپنے دل سے اسے برا جانے اور برائی کرنے والے سے دور رہے اور اس کے ساتھ میل جول نہ رکھے۔‘‘
5۔جو شخص لوگوں کی برائیوں پر خاموش رہتا ہے اور انھیں ان سے منع نہیں کرتا تو در حقیقت وہ مداہنت کا شکار ہو کر لوگوں کی رضا مندی کیلئے اللہ کو ناراض کر بیٹھتا ہے۔یعنی وہ انھیں اس لئے منع نہیں کرتا کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں۔اور اسے اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ اس کے اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو رہاہے۔جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ
((مَنِ الْتَمَسَ رِضَا النَّاسِ بِسَخَطِ اللّٰہِ سَخِطَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَأَسْخَطَ عَلَیْہِ النَّاسَ، وَمَنِ الْتَمَسَ رِضَا اللّٰہِ بِسَخَطِ النَّاسِ، رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضٰی عَنْہُ النَّاسَ)) [3]
’’ جو آدمی اللہ کو ناراض کرکے لوگوں کی رضامندی کا طلبگار ہوتا ہے تواس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور وہ لوگوں کو بھی اس سے ناراض کردیتا ہے۔اور جو شخص اللہ کی رضا کی خاطر لوگوں کی ناراضگی کومول لے لیتا ہے تو اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جاتا ہے اور لوگوں کو بھی اس سے راضی کردیتا ہے۔‘‘
[1] تفسیر ابن کثیر: /3 205
[2] تفسیر قرطبی:253/6
[3] صحیح الترغیب والترہیب :2250