کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 64
اس کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے : ﴿ فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُکِّرُواْ بِہِ أَنجَیْْنَا الَّذِیْنَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوئِ وَأَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِیْسٍ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ﴾[1] ’’ پھر جب وہ لوگ ان باتوں کو بھول گئے جن کی انھیں نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے صرف ان لوگوں کو عذاب سے بچا لیا جو برائی سے منع کرتے تھے۔اور ظالموں کو ان کے گناہوں کے سبب سخت عذاب میں گرفتار کر لیا۔‘‘ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ رب العزت نے صرف ان لوگوں کو اپنے عذاب سے بچایا جو برائی سے منع کرتے تھے۔رہے وہ لوگ جو برائی کا ارتکاب کرتے تھے اور وہ جو ان کی برائی پر خاموش رہتے تھے تو وہ سب اس کے عذاب کی زد میں آگئے۔والعیاذ باللہ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ( أَیُّہَا النَّاسُ ! إِنَّکُمْ تَقْرَؤُنَ ہٰذِہِ الْآیَۃَ : ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ﴾ وَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقُولُ : إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ یَأْخُذُوْا عَلٰی یَدَیْہِ أَوْشَکَ أَن یَّعُمَّہُمُ اللّٰہُ بِعِقَابٍ مِّنْہٗ ) ’’ اے لوگوا ! تم یہ آیت تلاوت کرتے ہو : ( جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ) اے ایمان والو ! تم اپنے بچاؤ کی فکر کرو، اگر تم خو د راہِ راست پر چلتے رہو گے تو کسی کی گمراہی تمھیں نقصان نہیں پہنچائے گی۔جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے ارشاد فرمایا : ’’ بے شک لوگ جب ظالم کو دیکھیں، پھر اسے ظلم سے منع نہ کریں تو بہت قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ان سب کو عذاب میں مبتلا کردے۔‘‘[2] 2۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنے کے نتیجے میں دعائیں قبول نہیں ہوتیں ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَوا عَنِ الْمُنْکَرِ قَبْلَ أَنْ تَدْعُو فَلَا یُسْتَجَابَ لَکُمْ )) ’’ تم نیکی کی تلقین کرتے رہو اور برائی سے منع کرتے رہو، اِس سے پہلے کہ تم دعا کرو، پھر تمھاری دعاؤں کو قبول نہ کیا جائے۔‘‘[3] اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
[1] الأعراف7:165 [2] سنن أبی داؤد :2168۔وصححہ الألبانی [3] سنن ابن ماجہ :4004۔وحسنہ الألبانی