کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 63
کے درمیان تک۔ تیسرا مرتبہ : دل کے ساتھ برائی کو برا ماننا جب ایک انسان اپنے ہاتھ اور اپنی زبان کے ساتھ برائی سے منع کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہوتو جو چیز اس پر کم از کم واجب ہے وہ یہ ہے کہ وہ برائی کو اپنے دل سے برا جانے اور اس سے نفرت کرے۔یہ ایسی چیزہے کہ اگر یہ بھی نہ ہو تو اس کے بعد حدیث کے مطابق رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان باقی نہیں رہتا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ زندوں میں مردہ کون ہوتا ہے ؟ تو فرمایا : ( اَلَّذِیْ لَا یَعْرِفُ مَعْرُوفًا وَلَا یُنْکِرُ مُنْکَرًا ) [1] ’’ جو نیکی کو نیکی نہیں سمجھتا اور برائی کو برا نہیں سمجھتا۔‘‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو ترک کرنے کے خطرناک نتائج 1۔اللہ رب العزت کا عذاب ! جب معاشرے میں برائیاں پھیل رہی ہوں، ہر آئے دن فساد بڑھتا ہی چلا جا رہا ہو اور جن لوگوں کو نیکی کی تلقین اور برائیوں سے منع کرنا چاہئے وہ بھی خاموش ہوں تو جب اللہ کا عذاب آتا ہے ( والعیاذ باللہ ) تو اس کی زد میں نہ صرف فاسق وفاجر لوگ آتے ہیں بلکہ وہ بھی اس کی زد میں آتے ہیں جنھوں نے ان کے جرائم اور معاشرتی برائیوں پر چپ سادھ رکھی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾ [2] ’’ اور تم لوگ اس فتنے سے ڈرتے رہو جس کا اثر تم میں سے صرف ظالموں تک ہی محدود نہیں رہے گا۔اور جان لو کہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہوتا ہے۔‘‘ شیخ محمد شنقیطی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں کہتے ہیں : ’’ یہ فتنہ جس سے ظالم اور غیر ظالم سب دوچار ہوتے ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ جب اپنی سوسائٹی میں برائی کو دیکھیں، پھر اس سے منع نہ کریں تو اللہ کا عذاب ان سب پر نازل ہوتا ہے۔نیک لوگوں پر بھی اور برے لوگوں پر بھی۔‘‘[3]
[1] الأمر بالمعروف والنہی عن المنکر لابن تیمیہ :ص9 [2] الأنفال8 :25 [3] تفسیر أضواء البیان :171/1