کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 58
کہ ایک شخص کو چھینک آئی۔تو میں نے کہا : ( یَرْحَمُکَ اللّٰہُ ) اِس پر لوگ مجھے گھور گھور کر دیکھنے لگے۔میں نے کہا : میری ماں مجھے گم پائے ! تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ مجھے اِس طرح دیکھتے ہو ! چنانچہ انھوں نے اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے شروع کردئیے۔میں نے جب دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں :
((مَا رَأَیْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَہُ وَلاَ بَعْدَہُ أَحْسَنَ تَعْلِیْمًا مِنْہُ، فَوَ اللّٰہِ مَا کَہَرَنِی وَلاَ ضَرَبَنِی وَلاَ شَتَمَنِی))
میں نے آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد آپ سے بہتر تعلیم دینے والا کبھی نہیں دیکھا، اللہ کی قسم ! آپ نے نہ مجھے ڈانٹا، نہ مجھے مارا ا ور نہ مجھے برا بھلا کہا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
((إِنَّ ہَذِہِ الصَّلَاۃَ لَا یَصْلُحُ فِیْہَا شَیْئٌ مِنْ کَلَامِ النَّاسِ، إِنَّمَا ہُوَ التَّسْبِیْحُ وَالتَّکْبِیْرُ وَقِرَائَ ۃُ الْقُرْآنِ)) [1]
’’ بے شک یہ نماز ایسی عبادت ہے کہ اس میں لوگوں کی بات چیت درست نہیں ہے۔اس میں تو بس تسبیح وتکبیر اور قراء ت ِ قرآن ہی ہے۔‘‘
تیسری شرط : صبر
یعنی امر بالمعروف ونہی عن المنکرکے نتیجے میں اگر کوئی شخص آپ کو تکلیف پہنچائے تو آپ اس پر صبر کریں اور اسے اللہ کی رضا کیلئے برداشت کریں۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ وَالْعَصْرِ٭ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ٭إِلاَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾[2]
’’ زمانے کی قسم ! بلا شبہ انسان گھاٹے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘
اور حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: ﴿ یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْروْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ﴾[3]
’’ میرے پیارے بیٹے ! نماز قائم کرنا، نیکی کا حکم دینا، برائی سے منع کرنا اور تمھیں جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کرنا۔یہ یقینا ہمیت والے کاموں میں سے ہے۔‘‘
[1] صحیح مسلم : 537
[2] سورۃ العصر
[3] لقمان31 :17