کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 57
فرعون کی طرف بھیجا تو انھیں حکم دیا کہ ﴿اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی ٭ فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی﴾ [1] ’’ تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ کیونکہ وہ سرکشی اختیار کر چکا ہے۔لہٰذا تم دونوں اس سے نرم بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے۔‘‘ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اگر فرعون جیسے سرکش انسان سے نرم بات کرنے کا حکم ہے تو مسلمانوں کیلئے تو اُس سے بھی زیادہ نرمی اختیار کرنے کا حکم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ دعوت الی اللہ کا اسلوب ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : ﴿ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ﴾[2] ’’ آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقے سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو۔‘‘ عمدہ نصیحت سے مراد یہ ہے کہ آپ ان سے اتنے اچھے انداز سے بات کریں کہ انھیں یقین ہو جائے کہ آپ ان کے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں۔ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی اسلوب واضح ہوتا ہے۔ مثلا حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے مسجد میں پیشاب کرنا شروع کردیا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس کی طرف لپکے اور کہا : ٹھہر جاؤ، ٹھہر جاؤ۔تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( لَا تُزْرِمُوہُ دَعُوہُ )) ’’ اسے مت کاٹو اور چھوڑ دو۔‘‘ چنانچہ انھوں نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ پیشاب سے فارغ ہو گیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلاکر فرمایا : (( إِنَّ ہٰذِہِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَیْیٍٔ مِّنْ ہٰذَا الْبَولِ وَلَا الْقَذَرِ، إِنَّمَا ہِیَ لِذِکْرِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَالصَّلَاۃِ وَقِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ )) ’’ یہ مساجد یقینا اِس پیشاب اور گندگی کیلئے نہیں بنائی گئی ہیں۔بلکہ یہ تو صرف اللہ عز وجل کا ذکر کرنے، نمازپڑھنے اور تلاوتِ قرآن کیلئے بنائی گئی ہیں۔‘‘ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک ڈول منگوا کر اس کے پیشاب پر بہا دیا۔[3] اسی طرح معاویہ بن حکم السلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا
[1] طہ20 :43۔44 [2] النحل16 : 125 [3] صحیح مسلم : 285