کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 56
کہ علم قول وعمل سے پہلے ہے۔ اس شرط سے یہ بھی معلوم ہواکہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر علماء کی بہت بڑی ذمہ داری ہے جو انھیں پوری کرنی چاہئے اور اس سلسلے میں انھیں کوتاہی نہیں برتنی چاہئے۔کیونکہ اگر وہ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہونگے تو برائی اور برے لوگوں کو منع کرنے والا کوئی نہیں ہوگا، جس سے برائی اور زیادہ منتشر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ بنو اسرائیل میں سے بہت سارے لوگوں کی حالت یوں بیان کرتے ہیں : ﴿ وَتَرٰی کَثِیْرًا مِّنْھُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اَکْلِھِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ [1] ’’ ان میں سے اکثر کو آپ دیکھیں گے کہ گناہ اور زیادتی کے کاموں اور حرام خوری میں تگ ودو کرتے پھر رہے ہیں۔جو کام یہ کر رہے ہیں یقینا بہت برے ہیں۔‘‘ اس کے بعد علماء کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ لَوْ لَا یَنْھٰھُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَ اَکْلِھِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ ﴾ [2] ’’ ان کے مشائخ اور علماء انھیں گناہ کی بات کرنے اور حرام کھانے سے کیوں نہیں منع کرتے ؟ یقینا بہت برا ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ لوگوں کی برائیوں پر خاموش رہنا بہت بڑا گنا ہ ہے۔ اور امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: (وَدَلَّتِ الآیَۃُ عَلَی أَنَّ تَارِکَ النَّہْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ کَمُرْتَکِبِ الْمُنْکَرِ، فَالْآیَۃُ تَوْبِیْخٌ لِلْعُلَمَائِ فِی تَرْکِ الْأمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ ) ’’ اور یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ برائی سے نہ روکنے والا شخص ایسے ہی ہے جیسے وہ خود برائی کا ارتکاب کر رہا ہو۔لہٰذا اس آیت میں سخت تنبیہ ہے ان علماء کو جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرتے ہیں۔‘‘[3] دوسری شرط : نرم رویہ یعنی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینے والا شخص اس فریضے کی ادائیگی کے دوران نرم رویہ اختیار کرے اور سخت رویہ اپنانے سے بچے۔کیونکہ اللہ رب العزت نے جب موسی علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو
[1] المائدۃ5 : 62 [2] المائدۃ5 :63 [3] تفسیر القرطبی: 237/6