کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 55
’منکر ‘ ہے کہ جس سے منع کرنا ہے۔کیونکہ ’معروف‘ یا ’منکر ‘ وہ نہیں جو عام لوگوں کی نظر میں ’معروف ‘ یا ’ منکر ‘ ہو۔
بلکہ ’ معروف ‘ وہ ہے جس کا حکم یا جس کی ترغیب قرآن وحدیث میں دی گئی ہو،
یا اس پر عمل کرنے والے لوگوں کی تعریف کی گئی ہو،
یا اس کے بارے میں قرآن وحدیث میں ذکر کیا گیا ہو کہ اس کام کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور اس کے کرنے والے شخص کو اجر وثواب دیتا ہے۔گویا’ معروف ‘ میں ہر وہ عمل ِ خیر شامل ہے جو قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔
اور ’ منکر ‘ وہ ہے جس سے کتاب وسنت میں منع کیا گیا ہو،
یا اس سے ڈرایا گیا ہو اور دنیا وآخرت میں اس کے نقصانات کے متعلق آگاہ کیا گیا ہو،
یا اس کے کرنے والے شخص کی مذمت کی گئی ہو یا اسے وعید سنائی گئی ہو، یا اس پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہو۔
گویا ’ منکر ‘ میں تمام گناہ شامل ہیں، خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے، خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ معروف ومنکر کی پہچان کا معیار شریعت ہے نہ کہ لوگوں کا مزاج یا اپنی خواہش نفس۔
لہٰذا معروف کی تلقین کرنے والے شخص کو ’ معروف ‘ کے متعلق شرعی علم ہونا چاہئے کہ یہ کام واقعتا معروف ہے۔اسی طرح منکر سے منع کرنے والے آدمی کو ’ منکر ‘ کے متعلق شرعی علم ہونا چاہئے کہ یہ کام واقعتا منکر ہے۔اگر اسے علم ہو تو وہ یہ فریضہ سرانجام دے ورنہ بغیر علم کے ایسا کرنے سے باز رہے، کیونکہ اس میں فائدے کی نسبت نقصان زیادہ ہونے کا امکان ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ ﴾[1]
’’ آپ کہہ دیجئے کہ یہی ہے میرا راستہ، میں دلیل وبرہان کی روشنی میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میرا ہر پیروکار بھی۔‘‘
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ’صحیح ‘میں ایک باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے : ( بَابُ الْعِلْمِ قَبْلَ الْقَولِ وَالْعَمَل ) اور اس کے تحت یہ آیت بطور دلیل ذکر کی ہے :
﴿ فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنٰتِ ﴾[2]
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے علم کا ذکر پہلے اور استغفار کا ذکر بعد میں کیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے
[1] یوسف 12:108
[2] محمد47 :19