کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 468
صرف ایک گھنٹہ اللہ کیلئے اور تیئیس گھنٹے آپ کیلئے۔اور ایک گھنٹہ جو اللہ کے فرائض کیلئے ہے وہ بھی درحقیقت آپ ہی کی مصلحت اور آپ ہی کے فائدے کیلئے ہے، کیونکہ نمازیں پڑھنے سے آپ ہی مستفید ہوتے ہیں کہ ان کے ذریعے آپ کے جسم کو گناہوں سے پاک کردیا جاتا ہے۔
اسی طرح فرضی روزے ہیں، جو سال کے بعد آتے ہیں، ماہِ رمضان کی ابتداء سے شروع ہوتے ہیں اور اس کی انتہاء کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں۔اور ان کے ذریعے بھی انسان کے گناہوں کو مٹا دیا جاتا ہے۔
اسی طرح زکاۃ ہے، جو سال گزرنے کے بعد فرض ہوتی ہے۔اور اس کے ذریعے زکاۃ دینے والے کا تزکیہ ہوتا ہے اور مال پاک ہو جاتا ہے۔
اسی طرح حج بیت اللہ ہے، جس کا مہینہ بھی مقرر ہے اور اس کے ایام بھی مقرر ہیں۔اور مناسکِ حج کا پورا شیڈول منظم ومرتب ہے، جس کی پابندی کرنا ہر حاجی پر لازم ہوتا ہے۔
اسی طرح نماز عیدین ہے، نماز جمعہ ہے، مختلف نفلی روزے ہیں، مثلا ہر پیر اور جمعرات کا روزہ، ایام بیض کے روزے، عاشوراء اور عرفہ کے روزے وغیرہ……یہ سب عبادات اپنے اپنے مقررہ اوقات میں ہی انجام دی جاتی ہیں۔اسی طریقے سے ہر مسلمان کو اپنی زندگی کے معمولات کو مرتب کرنا چاہئے۔اور فارغ اوقات کو ایک ترتیب کے ساتھ گزارنا چاہئے، تاکہ ان قیمتی اوقات سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکے۔
اور یہ بات یاد رکھیں کہ جس کام کیلئے جو وقت متعین ہو اسے اسی وقت پورا کریں اور یہ مت کہیں کہ اسے بعد میں کر لیں گے……کیونکہ بعد میں تو وہ کام ہوگا جس کا وقت ہوگا۔اور بعد میں جب کئی کام اکٹھے ہوجائیں گے تو ایک بھی نہیں ہوگا، یا ایک آدھ ہو جائے گا اور باقی رہ جائیں گے۔اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو کام بروقت نہیں کیا جاتا تو وہ لیٹ ہوتے ہوتے آخر کار رہ ہی جاتا ہے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب اپنے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلافت کیلئے نامزد کیا تھا تو انھیں کچھ باتوں کی وصیت کی تھی، ان میں سے ایک یہ تھی :
’’ عمر ! یقین کر لو کہ اللہ تعالی کیلئے ایک عمل دن کے وقت ہوتا ہے جسے وہ رات کے وقت قبول نہیں کرتا۔اور ایک عمل رات کے وقت ہوتا ہے جسے وہ دن کے وقت قبول نہیں کرتا۔‘‘ [1]
اِس سے ثابت ہوا کہ دن کا کام دن کو اور رات کا کام رات کو کرنا چاہئے۔اور کسی کام کو بلا عذر مؤخر نہیں کرنا چاہئے۔
[1] معرفۃ الصحابۃ :106