کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 465
’’ کاش آپ دیکھیں جب مجرم اپنے رب کے حضور سر جھکائے کھڑے ہوں گے ( اور کہیں گے ) اے ہمارے رب ! ہم نے دیکھ اور سن لیا، لہذا ہمیں واپس بھیج دے تاکہ ہم اچھے عمل کرلیں۔ہمیں یقین آگیا ہے۔‘‘ میرے بھائیو اور بزرگو ! حسرت وندامت کے ان دو موقع کے آنے سے پہلے ہمیں ’وقت ‘ کی اہمیت اور اس کی قدرو منزلت کو پہچان لینا چاہئے۔اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں بھی موت کے وقت اور قیامت کے روز اسی حسرت وندامت کا سامنا کرنا پڑے۔والعیاذباللہ ’ وقت ‘ کی دو خصوصیات : عزیزان گرامی ! آئیے خطبے کے آخر میں ’ وقت ‘ کی دو اہم خصوصیات جان لیجئے۔ 1۔وقت انتہائی تیزی سے گزر رہا ہے جی ہاں، وقت بجلی کی سی تیزی کے ساتھ گزر رہا ہے۔اور ہر گزرتے دن، ہر گزرتی رات اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ہماری زندگی کم ہو رہی ہے۔اور ہم قبر کی طرف اور آخرت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ وقت اتنا تیز چل رہا ہے کہ اس کی تیزی کا احساس ہی نہیں ہو رہا۔سال ایسے گزر جاتا ہے جیسے ایک مہینہ گزرا ہو۔اور مہینہ ایسے گزرجاتا ہے جیسے ایک ہفتہ گزرا ہو۔اور ہفتہ ایسے گزر جاتا ہے جیسے ایک دن گزرا ہو۔جب کبھی کوئی سالانہ مناسبت آتی ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے پچھلے سال کی وہی مناسبت ابھی قریب زمانے میں ہی گزری ہے۔حالانکہ اس کو پورا سال گزر چکا ہوتا ہے۔ ’ تقارب ِزمان‘ قیامت کی علاماتِ صغری میں سے ایک علامت ہے۔جس کا ایک معنی یہی ہے جو ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ لہذا زندگی کے ہر لمحے کو غنیمت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ 2۔’وقت ‘ سونا چاندی اور دینار ودرہم سے بھی زیادہ قیمتی ہے جی ہاں، وقت انتہائی قیمتی اور بہت ہی مہنگاہے۔اتنا قیمتی اور مہنگا کہ سونا چاندی، دینار ودرہم اور روپیہ اور ڈالر سے بھی زیادہ قیمتی اور مہنگا! کیونکہ 1۔اگر ( اللہ نہ کرے ) آپ کا مالی نقصان ہو جائے، یعنی سونا چاندی یا دینار ودرہم یا روپے اور ڈالر کا نقصان ہو جائے تو اس نقصان کو آپ اللہ کے حکم سے آنے والے وقت میں پورا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ’وقت ‘ کا نقصان ہو جائے، یعنی دن ضائع ہو جائے، یا دن کی ایک گھڑی ضائع ہو جائے، تو ضائع