کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 463
( وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ ) ’’ اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔‘‘[1] لہذا اپنی فراغت کو غنیمت سمجھ کر اس سے خوب فائدہ اٹھانا چاہئے، اِس سے پہلے کہ فراغت مشغولیت میں بدل جائے، پھر انسان کچھ کرنا بھی چاہے تو دیگر کاموں میں مشغولیت کی بناء پر کچھ نہ کر سکے۔ ورنہ یہ بات یاد رکھیں کہ اگر ہم فراغت کو رضائے الٰہی کا ذریعہ بننے والے اعمال میں مشغول نہیں کرتے اور اسے اللہ تعالی کی ناراضگی کا ذریعہ بننے والے اعمال میں ضائع کردیتے ہیں تو قیامت کے روز جب ہم سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا تو ہم کیا جواب دیں گے ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (لَا تَزُوْلُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبّہٖ حَتّٰی یُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ ) ’’ قیامت کے دن پانچ چیزوں کے بارے میں سوالات سے پہلے کسی بندے کے قدم اپنے رب کے پاس سے ہل نہیں سکیں گے۔‘‘ ( عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَ أَفْنَاہُ ) ’’ عمر کے بارے میں کہ اس نے اسے کس چیز میں گذارا ؟‘‘ (وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَ أَبْلاہُ ) ’’جوانی کے بارے میں کہ اس نے اسے کس چیز میں گنوایا ؟ ‘‘ 3، 4 ( وَ مَالِہٖ مِنْ أَیْنَ اکْتَسَبَہُ وَفِیْمَ أَنْفَقَہُ) ’’ مال کے بارے میں ( دو سوال ) کہ اس نے اسے کہاں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا ؟ ‘‘ (وَ مَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ ) ’’ اور علم کے بارے میں کہ اس نے اس پر کتنا عمل کیا ؟ ‘‘[2] لوگو ! قیامت کے روز جب آپ کی عمر کے بارے میں سوال ہوگا کہ اسے کس چیز میں گزارا، یعنی زندگی کے قیمتی اوقات کو کس کس عمل میں مصروف رکھا ؟ اللہ کو راضی کرنے والے اعمال میں ؟ یا اس کو ناراض کرنے والے اعمال میں ؟ تو سوچ لو کہ اُس دن اِس سوال کا کیا جواب دو گے ؟ اور اے نوجوانو ! قیامت کے روز جب تم سے سوال کیا جائے گا کہ اپنی جوانی کی توانائیوں کو کن اعمال میں کھپایا تھا ؟تم دن اور رات کا بیشتر حصہ کس کس کے ساتھ، کیا کیا کرتے ہوئے گزارتے تھے ؟ تم جب اپنے روم میں اکیلے ہوتے تھے تو کیا کیا دیکھتے تھے ؟ کیا کیا سنتے تھے ؟ کیا کیا پڑھتے تھے ؟ اور فارغ اوقات میں کیا کیا کرتے تھے ؟ تو تم بھی سوچ لو کہ قیامت کے روز ان سوالوں کے کیا جواب دو گے ؟
[1] أخرجہ الحاکم وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب :3355 [2] جامع الترمذی : 2416۔وصححہ الألبانی