کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 46
’’ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کیلئے پیدا کیا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اولین اسلامی معاشرہ تشکیل دیا اس کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔جو اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں اِس فریضہ کا اہتمام نہ کیا جائے۔ اور جس معاشرے میں اِس فریضہ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، وہ بہت جلد تباہی کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے۔جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مثال یوں بیان فرمائی کہ جیسے کچھ لوگ ایک بحری جہاز میں سوار ہوں۔ان میں سے کچھ لوگ نچلے طبقے میں اور کچھ لوگ اوپر والے طبقے میں ہوتے ہیں۔نچلے طبقے کے لوگوں کو پانی لینے کیلئے بار باراوپر جانا پڑتا ہے۔جس سے اوپر والے طبقے کے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔چنانچہ نچلے طبقے کے لوگ سوچتے ہیں کہ بجائے اوپر جانے اور اوپر والے لوگوں کو بار بار تکلیف دینے کے ہم نیچے سے ہی سوراخ کر لیں۔اب اگر اوپر والے نیچے والوں کو اس سے منع نہ کریں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ جہاز میں سوار سب لوگ ڈوب جائیں گے۔اور اگر وہ انھیں ایسا کرنے سے منع کریں تو خود بھی بچ جائیں گے اور جہاز میں سوار دیگر لوگ بھی نجات پا جائیں گے۔اسی طرح اگر معاشرے میں برائیوں سے منع کرنے والا کوئی نہ ہو تو اس میں بسنے والے تمام لوگ اللہ کے عذاب کی زد میں آجاتے ہیں۔لیکن اگر انھیں منع کرنے والے لوگ موجود ہوں تو وہ خود بھی نجات پا جاتے ہیں اور معاشرے کے دیگر باسیوں کی نجات کا بھی سبب بن جاتے ہیں۔ لہٰذامعاشرے کو تباہی سے بچانے کیلئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کرنا انتہائی ضروری ہے۔ہر شخص کو اِس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق یہ فریضہ سرانجام دینا چاہئے۔چاہے وہ گھر میں ہو یا آفس میں۔دکان میں ہو یا کمپنی میں۔سکول میں ہو یا مسجد میں۔الغرض یہ کہ جو جہاں ہو وہیں اس فریضے کو ادا کرے اور اپنی نجات اور معاشرے کے تمام افراد کی نجات کا سبب بنے۔ آخر میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں اپنی خرابیوں کی اصلاح کرنے کی توفیق دے۔آمین