کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 438
معاف کردیں اور اپنے بھائی کی خاطر اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں۔اور نوبت اِس حد تک نہ پہنچنے دیں کہ ان کے مابین جھگڑا ہو اور وہ ایک دوسرے پر ظلم وزیادتی کریں۔معاف کرنے اور جھگڑا ترک کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ((أَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَائَ وَإِنْ کَانَ مُحِقًّا……[1])) ’’ میں اس شخص کو جنت کے ادنی درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے اجتناب کرے……‘‘ 12۔مزاح میں بھی جھوٹ سے بچنا ہمارا دین سچ بولنے کا حکم دیتا اور جھوٹ بولنے سے منع کرتا ہے۔سچ بولنا نیکی ہے اور جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے۔اور جھوٹ سے بچنا اِس قدر ضروری ہے کہ مذاق مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔اِس کی فضیلت کیا ہے ! سنئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((أَنَا زَعِیْمٌ بِبَیْتٍ فِیْ رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَائَ وَإِنْ کَانَ مُحِقًّا، وَبِبَیْتٍ فِیْ وَسَطِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْکَذِبَ وَإِنْ کَانَ مَازِحًا……[2])) ’’ میں اس شخص کو جنت کے ادنی درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے سے اجتناب کرے۔اور اس شخص کو جنت کے درمیانے درجہ میں ایک گھر کی ضمانت دیتاہوں جو جھوٹ چھوڑ دے اگرچہ وہ مذاق کیوں نہ کر رہا ہو…………‘‘ جبکہ کئی لوگ اپنی مجلسوں میں لطیفہ گوئی کرتے ہیں اور ہنستے ہنساتے ہیں۔اور ان کے لطیفوں میں سے اکثر وبیشتر لطیفے جھوٹے ہوتے ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔لہٰذا ایسے لطیفے بیان کرنے سے بچنا چاہئے۔ ہاں جھوٹ بولے بغیر جائز مزاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعض اوقات خوش طبعی کیلئے مزاح کر لیا کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گذارش کی کہ اسے سواری فراہم کی جائے۔آپ نے فرمایا : میں تمھیں اونٹنی کا بچہ دونگا۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کرونگا ؟
[1] سنن أبی داؤد : 4800۔وحسنہ الألبانی [2] سنن أبی داؤد : 4800۔وحسنہ الألبانی