کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 436
’’ جو شخص خالی جگہ کو پُر کرے تو اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کا ایک درجہ بلند کردیتا ہے اور اس کیلئے جنت میں ایک گھر بنا دیتا ہے۔‘‘[1]
10۔دس مرتبہ سورت اخلاص پڑھنا
قرآن مجید کی جن سورتوں کی خصوصی طور پر فضیلت ثابت ہے ان میں سے ایک سورۃ الاخلاص ہے۔جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ ثلث القرآن ‘ یعنی قرآن کے تیسرے حصے کے برابر قرار دیا ہے۔اور یہ ایسی سورت ہے کہ جو شخص اس سے محبت کرتا ہو اور اسے بار بار پڑھتا ہو اس کیلئے اللہ تعالی جنت میں ایک محل بنا دیتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( مَنْ قَرَأَ قُلْ ہُوَ اللّٰہُ أَحَدٌ حَتّٰی یَخْتِمَہَا عَشْرَ مَرَّاتٍ، بَنَی اللّٰہُ لَہٗ قَصْرًا فِی الْجَنَّۃِ))
’’ جو شخص مکمل سورتِ اخلاص دس مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالی اس کیلئے جنت میں ایک محل بنا دیتا ہے۔‘‘
یہ سن کر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہنے لگے : یا رسول اللہ ! تب تو میں یہ سورت بہت زیادہ پڑھوں گا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اَللّٰہُ أَکْثَرُ وَأَطْیَبُ ) ’’ اللہ اور زیادہ دینے والا اور بہت اچھا ہے۔‘‘[2]
میرے بھائیو اور بہنو ! اس عظیم الشان سورت کی محبت بندے کو جنت میں پہنچا دیتی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری شخص مسجد قباء میں امامت کرتا تھا اور وہ جب بھی قراء ت شروع کرتا تو سورۃ الاخلاص سے کرتا، پھر کوئی دوسری سورت پڑھتا۔اور وہ ہر رکعت میں اسی طرح کرتا تھا۔اس کے مقتدیوں نے کہا : تم ہمیشہ اسی سورت کے ساتھ قراء ت کی ابتداء کرتے ہو، پھر تم سمجھتے ہو کہ یہ تمھیں کافی نہیں ہوتی، اسی لئے تم مزید قراء ت کرتے ہو ! یا تو تم اسی کو پڑھا کرو، یا پھر اس کو چھوڑ دو اور کوئی دوسری سورت پڑھا کرو۔اس نے کہا : میں اسے چھوڑنے والا نہیں، اگر تمھیں پسند ہو تو میں امامت جاری رکھوں ! اور اگر تمھیں پسند نہ ہو تو میں امامت ترک کردیتا ہوں ! ان کے مقتدی حضرات انھیں اپنے میں سب سے بہتر سمجھتے تھے، اس لئے وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی اور ان کی جگہ پر امامت کرے۔چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں بتایا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا :
(( یَا فُلَانُ ! مَا یَمْنَعُکَ أَنْ تَفْعَلَ مَا یَأْمُرُکَ بِہٖ أَصْحَابُکَ، وَمَا یَحْمِلُکَ عَلٰی لُزُومِ ہٰذِہِ السُّوْرَۃِ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ ؟))
[1] رواہ الطبرانی۔وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب :505
[2] السلسلۃ الصحیحۃ :589