کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 430
’’ اے میرے رب ! میرے لئے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا لے اور مجھے ظالم لوگوں سے خلاصی دے دے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ جنت کے یہ قصور ومحلات کن لوگوں کیلئے تیار کئے گئے ہیں ؟ اور وہ کون لوگ ہیں جو ان میں رہائش پذیر ہونے کے حقدار ہیں ؟ اور وہ کونسے اعمال ہیں کہ جن کے سبب اللہ تعالی مومنوں کیلئے جنت میں گھر بنا دیتا ہے ؟ یہی آج ہمارے خطبۂ جمعہ کا موضوع ہے۔ تو آئیے ان حضرات کا تذکرہ کرتے ہیں جنھیں اللہ رب العزت اپنے فضل وکرم کے ساتھ جنت کے محلات نصیب کرے گا۔اللّٰهُم اجعلنا منہم۔اسی طرح ان اعمال کا بھی تذکرہ کرتے ہیں کہ جن کے سبب اللہ تعالی اپنے بندوں کیلئے جنت میں گھر بنا دیتا ہے۔ 1۔اللہ تعالی پر ایمان لانے والے اور رسولوں کی تصدیق کرنے والے حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ((إِنَّ أَہْلَ الْجَنَّۃِ یَتَرَاؤَونَ أَہْلَ الْغُرَفِ مِنْ فَوقِہِمْ کَمَا یَتَرَاؤَونَ الْکَوْْکَبَ الدُّرِّیَّ الْغَابِرَ فِی الْأفُقِ مِنَ الْمَشْرِقِ أَوِ الْمَغْرِبِ، لِتَفَاضُلِ مَا بَیْنَہُمْ)) ’’ بے شک اہلِ جنت اپنے اوپر بالا خانے والوں کو یوں دیکھیں گے جیسا کہ تم مشرق یا مغرب کے افق پر چمکتے اور غروب ہوتے ہوئے ستارے کو دیکھتے ہو۔یہ اس لئے ہو گا کہ ان کے درجات میں تفاضل ہو گا۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : (( یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! تِلْکَ مَنَازِلُ الْأنْبِیَائِ لَا یَبْلُغُہَا غَیْرُہُمْ )) اے اللہ کے رسول ! وہ یقینا انبیاء کے گھر ہو نگے جہاں کوئی اور نہیں پہنچ سکے گا ؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( بَلٰی وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ، رِجَالٌ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَصَدَّقُوْا الْمُرْسَلِیْنَ)) [1] ’’کیوں نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! وہ گھر ان لوگوں کے ہونگے جو اللہ پر ایمان لائے اور جنھوں نے رسولوں کی تصدیق کی۔‘‘ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی ہی کو ساری کائنات کا خالق ومالک مانیں، اسی کو رازق سمجھیں اور اسی کو مدبر الامور تصور کریں۔اسی کو ’ داتا ‘ اسی کو حاجت روا اور مشکل کشا، اسی کو نفع ونقصان کا مالک، اسی کو بگڑی بنانے والا، اسی کو دستگیر اور اسی کو ’غوث اعظم‘ سمجھیں۔پھر اپنے دل کی گہرائیوں سے اس کو معبود برحق
[1] صحیح البخاری:3256، صحیح مسلم :2831