کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 429
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : (( یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ! أَوَ عَلَیْکَ أَغَارُ)) [1] یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی ! کیا میں آپ پر غیرت کھاؤں گا ؟ ‘‘ جبکہ جناب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( بَیْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَیْتُنِیْ فِی الْجَنَّۃِ، فَإِذَا امْرَأَۃٌ تَتَوَضَّأُ إِلٰی جَانِبِ قَصْرٍ)) ’’ میں سویا ہوا تھا، اسی دوران میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں ہوں۔پھر میں اچانک دیکھتا ہوں کہ ایک خاتون ایک محل کی ایک جانب وضو کر رہی ہے۔‘‘ تو میں نے کہا : ( لِمَنْ ہٰذَا الْقَصْرُ ؟ ) ’’یہ محل کس کیلئے ہے ؟‘‘ فر شتوں نے جواب دیا کہ یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کیلئے ہے۔چنانچہ مجھے عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت یاد آگئی اور میں وہاں سے پیٹھ پھیر کر چل دیا۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ ( یہ سن کر ) رونے لگے اور کہا : ( أَعَلَیْکَ أَغَارُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ؟ ) یا رسول اللہ ! کیا میں آپ پر غیرت کھاؤں گا ؟ [2] یہ دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جنت کے قصور ومحلات موجود ہیں۔ ان محلات میں داخل ہونا اور ان میں رہائش پذیر ہونا ہر مومن اور ہر مومنہ کی آرزو ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص جنت میں داخل ہوجائے گا وہی درحقیقت کامران وکامیاب ہوگا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ لاَ یَسْتَوِیٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ ﴾[3] ’’ جہنم والے اور جنت والے برابر نہیں ہیں۔جنت والے ہی کامیاب ہونگے۔‘‘ اسی طرح فرمایا : ﴿ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ﴾ [4] ’’ پس جس شخص کو جہنم سے دور اورجنت میں داخل کردیا جائے گا تو وہی کامیاب ہوگا۔‘‘ اور اسی لئے فرعون کی بیوی نے اللہ تعالی سے یہ دعا کی تھی : ﴿ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ﴾ [5]
[1] صحیح البخاری: 5226 و7024، صحیح مسلم :2394 [2] صحیح البخاری :3242، صحیح مسلم :2395 [3] الحشر59 :20 [4] آل عمران3 :185 [5] التحریم66 :11