کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 428
’’تمھیں یہ حق حاصل ہے کہ تم زندہ رہو گے، تم پر موت کبھی نہیں آئے گی۔‘‘ ’’ اور یہ بھی کہ تم تندرست رہو گے، کبھی بیمار نہیں ہو گے۔‘‘ ’’ اسی طرح تم جوان رہو گے، کبھی بوڑھے نہیں ہو گے۔‘‘ ’’ اور تم خوشحال رہو گے اور کبھی بد حال نہیں ہو گے۔‘‘[1] جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اس کے بڑے بڑے گھر اور قصور ومحلات ہیں۔اور ہر مسلمان کی دلی تمنا ہے کہ اسے ان گھروں اور قصور ومحلات میں سے ایک گھر اور قصر و محل ضرور مل جائے جس میں وہ رہائش پذیر ہو۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ غُرَفٌ مِّنْ فَوْقِہَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّۃٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ وَعْدَ اللّٰہِ لاَ یُخْلِفُ اللّٰہُ الْمِیْعَادَ ﴾[2] ’’ ہاں وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کیلئے بالا خانے ہیں جن کے اوپر بھی بنے بنائے بالا خانے ہیں اور ان کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے اور وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔‘‘ اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ أَوْ أَتَیْتُ الْجَنَّۃَ، فَاَبْصَرْتُ قَصْرًا )) ’’ میں جنت میں داخل ہوا یا میں جنت میں گیا تو میں نے سونے کا ایک محل دیکھا۔‘‘ میں نے پوچھا :(( لِمَنْ ہٰذَا ؟)) ’’ یہ کس کا ہے؟ ‘‘ انھوں نے کہا : (( لِرَجُلٍ مِّنْ قُرَیشٍ)) ’’ یہ قریش کے ایک شخص کا ہے۔‘‘ تو میں نے گمان کیا کہ شاید وہ میں ہوں، اس لئے میں نے پوچھا : وہ کون ہے ؟ انھوں نے کہا : عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو فرمایا : (( فَأَرَدتُّ أَنْ أَدْخُلَہٗ، فَلَمْ یَمْنَعْنِی إِلَّا عِلْمِیْ بِغَیْرَتِکَ)) ’’ مجھے اس میں داخل ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں تھی سوائے اس کے کہ میں تمھاری غیرت کو جانتا تھا۔‘‘
[1] صحیح مسلم :2837 [2] الزمر39 :20