کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 406
13۔حلالہ کرنا یا کروانا اسلام نے طلاق دینے کیلئے ایک قانون اور ضابطہ بنایا ہے۔اگر کوئی شخص اس قانون اور ضابطے کی پابندی کرتے ہوئے طلاق دے تو کوئی مشکل پیش نہیں آتی اور خاوند بیوی کے درمیان علیحدگی بڑے ہی عمدہ طریقے سے عمل میں آجاتی ہے۔مثلا ایک ضابطہ یہ ہے کہ جو شخص طلاق دینا چاہتا ہو وہ بیوی کے طہر کا انتظار کرے اور پھر جماع کئے بغیر وہ اپنی بیوی کو ایک ہی مرتبہ طلاق دے۔اس کے بعد تین ماہ کی عدت گزرنے دے۔اس دوران اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھے، شاید رجوع کے امکانات پیدا ہو جائیں اور ان دونوں کے درمیان صلح ہو جائے۔اور اگر صلح نہیں ہوتی تو عدت گزرنے کے ساتھ ہی بیوی اپنے خاوند سے الگ ہو جائے گی۔لیکن اب بھی ان دونوں کے درمیان رجوع کی ایک صورت باقی ہے اور وہ ہے نکاحِ جدید کے ذریعے۔ یہ کتنا اچھا ضابطہ ہے ! لیکن اسے کیا کہئے کہ لوگ جلد بازی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے ڈالتے ہیں ! حالانکہ اکٹھی تین طلاقیں دینا حرام ہے اور حدیث نبوی کے مطابق کتاب اللہ کو کھلونا بنانے کے مترادف ہے۔پھر اس پر ستم یہ ہوتا ہے کہ تین طلاقوں کو تین ہی شمار کر لیا جاتا ہے۔حالانکہ وہ ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے اور اس کے بعد بھی رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے۔پھر اس پر دوسرا ستم یہ ہوتا ہے کہ اگر خاوند اکٹھی تین طلاقیں دینے کے بعد رجوع کرنا چاہے تو کہا جاتا ہے : نہیں، یہ نا ممکن ہے، جب تک کہ بیوی کا حلالہ نہ ہو ! حالانکہ حلالہ کرنے والا اور کروانے والا دونوں ملعون ہیں اور اللہ کی پھٹکار کے مستحق ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : (( لَعَنَ اللّٰہُ الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَہُ)) [1] ’’ اللہ کی لعنت ہو حلالہ کرنے والے پر اور اس پر جس کیلئے حلالہ کیا جائے۔‘‘ حلالہ کرنے والا شخص ادھار لئے ہوئے سانڈھ کے مترادف ہے۔ جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ( أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِالتَّیْسِ الْمُسْتَعَارِ ؟ )
[1] سنن أبی داؤد : 2078۔صححہ الألبانی