کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 399
اِلاَّ لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ ﴾
’’آپ کہہ دیجئے کہ جنہیں تم اﷲ کے سوا معبود بنا بیٹھے ہو انہیں پکارو تو سہی، وہ تو آسمانوں اور زمین میں ایک ذرہ کے بھی مالک نہیں اور نہ ان کا ان میں کوئی حصہ ہے۔اور نہ ان میں سے کوئی اﷲ کا مدد گار ہے اور نہ اس کے نزدیک سفارش کام آئے گی سوائے اس شخص کے جس کے لئے وہ سفارش کی اجازت دے گا۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالی کو ایذا پہنچانے کی ایک اور صورت یہ ہے کہ کوئی بندہ زمانے کو گالی گلوچ کرے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا :
(( یُؤْذِیْنِی ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّہْرَ وَأَنَا الدَّہْرُ، أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ ))
’’ ابن ِ آدم مجھے ایذا پہنچاتا ہے کہ زمانے کو گالی دیتا ہے جبکہ میں ہی زمانہ ہوں، میں رات اور دن کو بدلتا ہوں۔‘‘[1]
جہاں تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی زندگی میں اور وفات کے بعد ایذا پہنچانے کی متعدد صورتیں ہیں۔مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو گالی گلوچ کا نشانہ بنایا جائے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیب جوئی کی جائے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جائے۔یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے شائع کئے جائیں، یا کارٹون بنائے جائیں۔یا کسی اور طریقے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی جائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں کفار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاتے تھے۔زبانی بھی اور جسمانی بھی۔زبان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( ساحر، مجنون ) وغیرہ کہتے تھے۔یقینا اِس سے آپ کو ایذا پہنچتی تھی۔اسی طرح جسمانی طور پر بھی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاتے تھے جس کے واقعات حدیث وسیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔
کفار کے علاوہ منافق بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچاتے تھے۔جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿وَ مِنْھُمُ الَّذِیْنَ یُؤذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ ھُوَ اُذُنٌ قُلْ اُذُنُ خَیْرٍلَّکُمْ یُؤمِنُ بِاللّٰہِ وَ یُؤمِنُ لِلْمُؤمِنِیْنَ وَ رَحْمَۃٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ الَّذِیْنَ یُؤذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَھُمْ عَذَابٌاَلِیْمٌ ﴾[2]
’’اور ان ( منافقوں ) میں سے بعض ایسے ہیں جو نبی کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ کانوں کا ہلکا ہے! آپ کہہ دیجئے کہ وہ تمھارے لئے خیر کی باتیں سنتا ہے، اللہ پر یقین رکھتا ہے، مومنوں کی باتوں پر بھروسہ کرتا ہے اور تم میں سے ایمان والوں کیلئے سراپا رحمت ہے۔اور جو لوگ اللہ کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔‘‘
[1] صحیح البخاری :4826، وصحیح مسلم : 2246
[2] التوبۃ9 :61