کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 393
’’ تم لالچ سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔لالچ نے انھیں کنجوسی کرنے کا حکم دیا، تو انھوں نے کنجوسی کی، لالچ نے انھیں قطع رحمی کا حکم دیا تو انھوں نے قطع رحمی کی۔اور لالچ نے انھیں گناہ کا حکم دیا تو انھوں نے گناہ کا ارتکاب کیا۔‘‘[1] ان دونوں حدیثوں سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ’ لالچ ‘ کس قدر بری بلا ہے ! اور ’لالچ ‘ کی سنگینی کی وجہ سے ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (( لَا یَجْتَمِعُ الشُّحُّ وَالْإِیْمَانُ فِیْ قَلْبِ عَبْدٍ أَبَدًا)) [2] ’’ کسی بندے کے دل میں لالچ اور ایمان ( دونوں ) کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے۔‘‘ یعنی اگر ایمان ہے تو لالچ نہیں اور اگر لالچ ہے تو ایمان نہیں۔ اور اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿وَمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ [3] ’’ اور جس شخص کو اپنے نفس کے لالچ سے بچا لیا جائے تو ایسے ہی لوگ کامیابی پانے والے ہیں۔‘‘ 2۔دوسری مہلک چیز وہ نفسانی خواہش ہے جس کی اتباع کی جائے۔یعنی اگر کوئی شخص اپنے نفس کو ہی معبود بنا لے اور ہمیشہ نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑا رہے تو وہ یقینا تباہی اور بربادی سے دوچار ہو گا۔ خواہشات ِ نفس کی پیروی کرنے والے شخص اور جانوروں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا، بلکہ وہ جانوروں سے بھی بد تر ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰہَہُ ہَوٰہُ اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلًا ٭ اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِِنْ ہُمْ اِِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا ﴾[4] ’’بھلا آپ نے اس پر غور کیا جس نے اپنی خواہش کو ہی معبود بنا رکھا ہے ؟ کیا اس کو ( راہ راست پر لانے کے ) ذمہ دار آپ بن سکتے ہیں ؟ یا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے اور سمجھتے ہیں ؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر ہیں۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے نفسانی خواہشات کے پیروکار کو سب سے بڑا گمراہ قرار دیا ہے۔
[1] سنن أبی داؤد :1700۔وصححہ الألبانی [2] سنن النسائی :3110۔وصححہ الألبانی [3] التغابن64 :16 [4] الفرقان25 : 43۔44