کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 390
(( إِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ عَلٰی مَنَابِرَ مِن نُّوْرٍ عَنْ یَمِیْنِ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ، وَکِلْتَا یَدَیْہِ یَمِیْنٌ،اَلَّذِیْنَ یَعْدِلُوْنَ فِیْ حُکْمِہِمْ وَأَہْلِیِْہِمْ وَمَا وَلُوْا )) [1]
’’بے شک انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں اُس کی دائیں طرف نور کے ممبروں پر ہو نگے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں، اپنے گھر والوں اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل وانصاف کرتے ہیں۔‘‘
2۔مالداری اور غربت ( دونوں حالتوں میں ) میانہ روی اختیار کرنا
انسان چاہے مالدار ہو یا غریب ہو، دونوں حالتوں میں اسے اعتدال کی راہ اور میانہ روی اختیار کرنی چاہئے۔نہ وہ اسراف اور فضول خرچی کرے اور نہ ہی بخل اور کنجوسی کرے۔
اللہ رب العزت اپنے بندوں کی صفات میں سے ایک صفت یوں بیان فرماتے ہیں :
﴿وَالَّذِیْنَ اِِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا﴾[2]
’’ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان ہوتا ہے۔‘‘
اسی طرح فرمایا :
﴿ وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ﴾[3]
’’ اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ کر رکھو ( یعنی بخل اور کنجوسی نہ کرو ) اور نہ ہی اسے پوری طرح کھلا چھوڑ دو ( یعنی اسراف اور فضول خرچی بھی نہ کرو۔) ورنہ خود ملامت زدہ اور درماندہ بن جاؤ گے۔‘‘
3۔چھپے ہوئے اور ظاہرا ( دونوں حالتوں میں ) اللہ کا ڈر
انسان چاہے لوگوں کے سامنے ہو یا ان کی نظروں سے اوجھل ہو، ہر دو حالت میں اسے اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا چاہئے۔اور اللہ تعالی سے ڈر کر اپنے دامن کو ہر حال میں گناہوں سے بچانا چاہئے۔کیونکہ اللہ تعالی ہر جگہ پر اور ہر حال میں انسان کی نگرانی کر رہا ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا ﴾ [4]’’ بے شک اللہ تعالی تم پر نگران ہے۔‘‘
جو لوگ اللہ تعالی سے ڈرتے رہتے ہیں، خاص طور پر اپنی خلوتوں میں، تو اللہ تعالی ان کے متعلق ار شاد فرماتا
[1] صحیح مسلم :1827
[2] الفرقان25 :67
[3] الإسراء17 :29
[4] النساء4 :1