کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 375
(( مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَطْلُبُ فِیْہِ عِلْمًا سَلَکَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہٖ طَرِیْقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ الْمَلَائِکَۃَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَہَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ)) [1]
’’ جو شخص طلب ِ علم کیلئے ایک راستہ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے جنت کے راستوں میں سے ایک راستے پر چلا دیتا ہے۔اور فرشتے طالب علم سے اظہار رضا مندی کرتے ہوئے اپنے پر بچھاتے ہیں۔‘‘
10۔فرشتے مومنوں کو بشارت دیتے ہیں
اللہ تعالی حضرت زکریا علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے :
﴿ فَنَادَتْہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ ھُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی﴾ [2]
’’ چنانچہ جب وہ محراب میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے تو فرشتوں نے انھیں پکار کر کہا کہ اللہ تعالی آپ کو یحیٰی علیہ السلام کی خوشخبری دیتا ہے……‘‘
اورحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ ایک شخص اپنے بھائی سے ملنے کیلئے اس کی بستی کی طرف روانہ ہوا تو اللہ تعالی نے اس کے راستے میں ایک فرشتہ مقرر کردیا۔چنانچہ وہ جب وہاں سے گذرا تو فرشتے نے کہا : تم کہاں جا رہے ہو؟ اس نے کہا : اِس بستی میں میرا ایک بھائی ہے جس سے ملنے جا رہا ہوں۔فرشتے نے کہا :
(( ہَلْ لَّکَ عَلَیْہِ مِنْ نِّعْمَۃٍ تَرُبُّہَا ؟))
یعنی کیا وہ تمہارا احسانمند ہے جس کی بناء پر تم اس سے ملنے جا رہے ہو ؟
اس نے کہا : نہیں، میں تو صرف اس لئے جا رہا ہوں کہ مجھے اس سے اللہ کی رضا کیلئے محبت ہے۔
فرشتے نے کہا :((فَإِنِّیْ رَسُولُ اللّٰہِ إِلَیْکَ بِأَنَّ اللّٰہَ قَدْ أَحَبَّکَ کَمَا أَحْبَبْتَہُ فِیْہِ ))
یعنی مجھے اللہ تعالی نے تمہاری طرف یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ جس طرح تو نے اس سے محض اللہ کی رضا کیلئے محبت کی ہے اسی طرح اللہ تعالی نے بھی تجھ سے محبت کر لی ہے۔‘‘[3]
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تو انھوں نے کہا : یا رسول اللہ ! یہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آرہی ہیں، ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن یا کھانے یا پینے کی کوئی چیز ہے، لہٰذا جب وہ آپ کے پاس آئیں تو
[1] سنن أبی داؤد :3641۔وصححہ الألبانی
[2] آل عمران3 :39
[3] صحیح مسلم : 2567