کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 360
بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ یُبَارَکْ لَہُ فِیْہِ کَالَّذِیْ یَأْکُلُ وَلَا یَشْبَعُ ) [1] ’’ اے حکیم ! بے شک یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے۔لہٰذا جو شخص اسے اپنے نفس کی سخاوت کے ساتھ ( بغیر لالچ اور بغیر مانگے )لے تو اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے۔اور جو شخص اسے اپنے نفس کی لالچ کے ساتھ لے تو اس میں برکت نہیں ڈالی جاتی۔اور وہ اُس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔‘‘ مال کا لالچ اس قدر خطرناک ہے اور اس سے اتنا نقصان ہوتا ہے کہ جتنا دو بھوکے بھیڑیوں کو بکریوں کے ریوڑ میں آزاد چھوڑنے سے نہیں ہوتا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِی غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَہَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْئِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِیْنِہِ ) [2] ’’ ایسے دو بھوکے بھیڑیے جنھیں بکریوں میں چھوڑ دیا جائے وہ ان میں اتنی خرابی نہیں کرتے جتنی خرابی مال اور جاہ ومنصب پر بندے کی لالچ کی وجہ سے اس کے دین میں ہوتی ہے۔‘‘ 11۔بر الوالدین اور صلہ رحمی یعنی والدین سے اچھا سلوک کرنا اور رشتہ داروں سے خوشگوارتعلقات قائم کرنا۔اس کے ذریعے بھی اللہ تعالی رزق میں برکت دیتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( مَنْ سَرَّہُ أَنْ یُّمَدَّ لَہُ فِیْ عُمُرِہٖ، وَیُزَادَ فِیْ رِزْقِہٖ فَلْیَبَرَّ وَالِدَیْہِ وَلْیَصِلْ رَحِمَہُ ) [3] ’’ جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ اس کی عمر لمبی کر دی جائے اور اس کے رزق میں اضافہ کردیا جائے تو وہ والدین سے اچھا برتاؤ کرے اور اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرے۔‘‘ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ( مَنْ أَحَبَّ أَن یُّبْسَطَ لَہُ فِیْ رِزْقِہٖ وَأَن یُّنْسَأَ لَہُ فِیْ أَثَرِہٖ فَلْیَصِلْ رَحِمَہُ ) ’’ جس آدمی کو یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں فراوانی کردی جائے اور اس کی موت کو مؤخر کردیا جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘[4]
[1] صحیح البخاری :1472، صحیح مسلم : 1035 [2] جامع الترمذی : 2376۔قال الألبانی : صحیح [3] مسند أحمد : 13425۔صححہ الأرناؤط، وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب :2488 [4] صحیحالبخاری : 5985، صحیح مسلم :2557