کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 36
’’ اے ایمان والو ! تم اللہ تعالیٰ کا حکم مانو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانو۔اور تم میں جو حکم والے ہیں ان کا بھی۔پھر اگر تمھارا کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹادو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔یہی (تمہارے حق میں )بہتر ہے اور اس کا انجام بہت اچھاہے۔‘‘ اختلافی مسئلے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے کا معنی یہ ہے کہ اس کا فیصلہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں کر لیاکرو۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پیشین گوئی فرمائی تھی کہ (( فَإِنَّہُ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِی فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا )) ’’ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا تو وہ عنقریب بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف کثیر کے واقع ہونے پر جس چیز کو مضبوطی سے تھامنے اور اس کی روشنی میں اختلافات کو حل کرنے کا حکم دیا وہ یہ ہے: ((فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الْمَہْدِیِّیْنَ الرَّاشِدِیْنَ، تَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ)) ’’ تم میری سنت کو لازم پکڑنا اور اسی طرح ہدایت یافتہ اور راہِ راست پر گامزن خلفاء کے طریقے پر ضرور عمل کرنا۔اس کو مضبوطی سے تھام لینا اور اسے قطعا نہ چھوڑنا۔اور تم دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘[1] اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ امت میں اختلافِ کثیر واقع ہونے کی شکل میں اگر تمام مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفائے راشدین کے طرز عمل کو مضبوطی سے تھام لیں اور دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچیں تو ان کے آپس کے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں۔اور جب معاشرے میں اختلافات ختم ہونگے تو یقینی طور پر معاشرہ ترقی کرے گا۔ چوتھی خصوصیت : ایک دوسرے سے تعاون اور خیرخواہی اسلامی معاشرے کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بسنے والے تمام لوگ ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں،ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں، ایک دوسرے پر رحم کرتے اور ترس کھاتے ہیں، ایک دوسرے کے
[1] سنن أبو داؤد :4607۔وصححہ الألبانی