کتاب: زاد الخطیب (جلد4) - صفحہ 359
برکت کو مٹا دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ( اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَیَّنَا بُوْرِکَ لَہُمَا فِیْ بَیْعِہِمَا، وَإِنْ کَذَبَا وَکَتَمَا مُحِقَتْ بَرَکَۃُ بَیْعِہِمَا ) [1] ’’ خریدار اور بیچنے والے کو جدا ہونے تک اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو سودا طے کر لیں اور اگر چاہیں تو اسے منسوخ کردیں۔اگر وہ دونوں سچ بولیں اور ہر چیز کو کھول کر بیان کر دیں تو ان کے سودے میں برکت آئے گی۔اور اگر وہ جھوٹ بولیں اور کسی بات کو چھپائیں تو ان کے سودے میں برکت ختم ہو جائے گی۔‘‘ اسی طرح اگر دو یا اس سے زیادہ لوگ مل کر کاروبار کرتے ہوں، تو ان میں سے ہرشریک اگر ایک دوسرے کا خیرخواہ ہو اور وہ سب مکمل دیانتداری سے تمام معاملات کو چلائیں تو اللہ تعالی ان کے رزق میں برکت دیتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یَقُولُ : أَنَا ثَالِثُ الشَّرِیْکَیْنِ مَا لَمْ یَخُنْ أَحَدُہُمَا صَاحِبَہُ، فَإِذَا خَانَہُ خَرَجْتُ مِنْ بَیْنِہِمْ ) [2] ’’ اللہ تعالی فرماتا ہے : میں دو شریکوں کا تیسرا ہوتا ہوں، جب تک ان میں سے کوئی ایک اپنے ساتھی کی خیانت نہ کرے۔پھر اگر کوئی خیانت کرے تو میں ان کے بیچ میں سے نکل جاتا ہوں۔‘‘ 10۔لالچ سے بچنا رزق میں برکت کے اسباب میں سے ایک اہم سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی آپ کو جو کچھ عطا کرے، اسے آپ خوش دلی سے قبول کریں اور مزید مال کے لالچ سے بچیں۔ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( مال ) طلب کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا کیا۔میں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا کیا۔میں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا کیا۔اور فرمایا : ( یَا حَکِیْمُ ! إِنَّ ہَذَا الْمَالَ خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ، فَمَنْ أَخَذَہُ بِسَخَاوَۃِ نَفْسِہٖ بُوْرِکَ لَہُ فِیْہِ، وَمَنْ أَخَذَہُ
[1] صحیح البخاری :1973، صحیح مسلم :1532 [2] سنن أبی داؤد : 3383۔وحسنہ الألبانی